اقوام متحدہ۔26اپریل (اے پی پی):اقوام متحدہ میں او آئی سی گروپ نے سویڈن میں ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت کی جانب سے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسلاموفوبیا کے تشویش ناک حد تک بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے عالمی کوششوں کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے اسلاموفوبک رویے سےدنیا بھر میں ڈیڑھ ارب زیادہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہےاور یہ آزادی اظہار اور انتہا پسندانہ بیانیے کے حق کا صریحاً غلط استعمال ہے جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستانی مندوب منیر اکرم جو اقوام متحدہ میں او آئی سی گروپ کے چیئرمین بھی ہیں نےاو آئی سی گروپ کے سفارتی سطح کے اجلاس کی صدارت کی ۔ اقوام متحدہ کے او آئی سی گروپ نے جاری مشترکہ بیان میں کہا کہ او آئی سی گروپ واضح طور پر اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی توہین کرنے کے عمل کی مذمت کرتا ہے اور مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر نفرت اور تشدد کی تمام کارروائیوں کی مخالفت ہے۔
گروپ نے کہا کہ وہ دنیا میں ہونے والے اسلامو فوبیا کے دیگر حالیہ واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے جن میں مساجد پر "گھناؤنے” حملے، نمازیوں کا قتل اور انہیں زخمی کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو تباہ کرنا، حجاب پر پابندی اور دیگر مسلم مخالف کارروائیاں شامل ہیں۔
گروپ نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مذہب یا عقائد کی بنیاد پر زینو فوبیا یعنی غیرملکیوں سے نفرت،عدم برداشت اور تشدد کو اکسانے کے خلاف اجتماعی عزم کریں اور بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کے فروغ کے لیے مل کر کام کریں۔ او آئی سی نے 15مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف بین الاقوامی دن منانے کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کے حالیہ اقدام کی اصل روح بھی یہی ہے ۔
اس موقع پر اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مستقل نمائندہ عامر خان نے اجلاس میں سویڈن میں اسلاموفوبک اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہوئے کہا کہ اگرچہ ہمیں یورپ میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا پر تشویش ہے،او آئی سی کو ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سمیت دنیا کے دیگر حصوں میں اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی روک تھام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے دوران بھارت میں ہندو انتہا پسند وں کی قیادت میں مسلمانوں کے خلاف اسلامو فوبک تشدد میں واضح اضافہ ہوا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ نئی دہلی کی جامع مسجد میں زعفرانی پرچم لہرانے کی حالیہ کوشش، توہین آمیز نعرے بازی، اشتعال انگیز میوزک اور ہنومان شوبھا یاترا کے جلوس کی جانب سے اسلحہ کی نمائش ریاست کا حمایت یافتہ ہیجان اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستانی سفیر عامر خان نے نئی دہلی کے علاقہ جہانگیر پوری میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی شدید مذمت بھی کی۔ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ کوئی سخت کارروائی کرنے کے بجائے بھارتی فوج نے صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا اور گرفتار کیا جنہوں نے ہندوتوا شرپسندوں کی دھمکیوں کا خمیازہ اٹھایا۔ اس طرح کے واقعہ نے فروری 2020 کے دہلی قتل عام کی ہولناک یادوں کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے جس کا مقصد مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک، ان کی بے دخلی اور توہین کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد اور امتیازی سلوک میں حالیہ اضافہ بھارت کی بی جے پی آر ایس ایس کی حکومت کے "ہندوتوا” نظریے کا حصہ ہیں جو مساجد کو شہید کرنےاور علامات کو ختم کرنے اور بھارت کے مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہریوں میں تبدیل کر کے بھارت سے اسلامی ورثے کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری بھارت میں اسلامو فوبیا کی تشویش ناک حد کا نوٹس لے اور مسلم کمیونٹی کے تحفظ ، سلامتی اور بہبود کو یقینی بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔