اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اسلامو فوبیا کے بڑھتےہوئے رجحان اور نسلی امتیاز کی دیگر اقسام کی روک تھام کے لیے کوششیں دوگنا کرے، پاکستان

64

جنیوا۔5اکتوبر (اے پی پی):پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ اسلامو فوبیا کے بڑھتےہوئے رجحان اور نسلی امتیاز کی دیگر اقسام کی روک تھام کے لیے کوششیں دوگنا کرے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف موثراحتساب کو یقینی بنائے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں پاکستان کے مستقل نمائندہ خلیل ہاشمی نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں نسل پرستی،نسلی امتیاز، زینوفوبیا ( غیرملکیوں سے نفرت)اور عدم برادشت کی متعلقہ اقسام پرہونے والی عام بحث میں اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ اسلاموفوبیا موجودہ دور میں نسل پرستی کی خطرناک شکل ہے جسے کئی دہائیوں سے مسلم کمیونٹیز اور اقلیتوں کے خلاف عوامی بیان بازی اور پالیسیوں سمیت دقیانوسی خیالات کی وجہ سے فروغ حاصل ہواہے۔

انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے اپنی ایک علیحدہ تقریر میں بعض مغربی اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی آڑ میں مسلم افراد اور کمیونٹیز کے خلاف امتیازی اقدامات کرنے سے متعلق قانون سازی کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا ۔

انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا کی سب سے زیادہ واضح اور اہم مثالیں جنوبی ایشیائی خطے میں دائیں بازو کے انتہا پسند ہندوتوا نظریے کے مسلسل فروغ سے ظاہر ہو تی ہیں جس نے فرقہ وارانہ تشدد،مذہبی مقامات پر حملوں، مذہب کی جبری تبدیلیوں اور مذہبی سرگرمیوں میں رکاوٹیں حائل کرنے کے ذریعے مسلمانوں ، عیسائیوں اور دلتوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا ہے۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرتشدد حملوں کے نتیجے میں جانی ومالی نقصان ہوا ہے ، ان جرائم کے مرتکب مجرموں کو ریاستی سرپرستی اور تحفظ حاصل ہے جس سے معافی کے بڑھتے ہوئے کلچر کو تقویت ملتی ہے۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی قبضے میں لوگوں کو امتیازی سلوک کی کئی اقسام کا سب سے زیادہ خطرہ ہے ،یہ پریشان کن رجحانات بھارت کے غیرقانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں سب سے زیادہ واضح ہیں جہاں بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی کر تے ہوئے نیو نو آبادیاتی سامراجی ریاستیں مسلم اکثریتی علاقے کومسلم اقلیت میں تبدیل کرکے اس کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کر رہی ہے اور ان کی الگ ثقافتی اور مذہبی شناخت کو ختم کررہی ہے۔

پاکستانی سفیر خلیل ہاشمی نے اسلامی تعاون تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ نسلی امتیاز ، زینو فوبیا اور مذہبی عدم برداشت کی روک تھام میں ناکامی سے نہ صرف معاشروں کو خطرہ لاحق ہے بلکہ پرامن عالمی بقائے باہمی کی خواہشات کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث ہے لہذا ہم مذہبی شخصیات کے احترام اور مذہبی علامات کی توہین کے ذریعے تشدد کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور مساجد پر حملوں اور انہیں شہید کرنے اور میناروں کی تعمیر پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کسی بھی مذہب کی توہین پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا کو سیاسی یا میڈیا کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا ، جیسا کہ کچھ نام نہاد جمہوریتوں میں واضح ہے ، مجموعی طور پر ادارہ جاتی امتیاز کی ایک نئی شکل کا اظہارہے۔خلیل ہاشمی نے کہا کہ او آئی سی نے بعض یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یورپین عدالت کی جانب سے کمپنیوں کو مسلمان خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کی اجازت دینا مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اسلاموفوبیا کو معمول پر لانے کے مترادف ہے۔او آئی سی نے کہا کہ یہ اقدامات مسلمان خواتین کی وقعت کم اور انہیں ان کے بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی سے محروم کر رہے ہیں جبکہ او آئی سی اظہار رائے کی آزادی کے حق کو اہمیت دیتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس حق کو نفرت انگیز تقریر ، جان بوجھ کر دوسرے لوگوں کے مذہب ، مذہبی شخصیات کی توہین اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کے لائسنس کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔