
اسلام آباد۔28اکتوبر (اے پی پی):صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کے تنازعہ پر زبان بندی کر کے سفارتکاری کے میدان میں اپنے عالمی قائدانہ کردار کے لئے کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں، تنازعہ کشمیر کی سنگینی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے باوجود اس عالمی ادارے نے مبہم بیانات دینے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری قتل و غارت گری، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف کھلے عام جرائم پر سلامتی کونسل اپنی خاموشی توڑ کر اس تاثر کو ختم کرے کہ وہ ظالم اور مظلوم کی اس معرکہ آرائی میں ظالم کے ساتھ نہیں کھڑی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی قبضے کے 73سال مکمل ہونے پر یوم سیاہ کے حوالے سے پاکستان ہائی کمیشن لندن، تحریک کشمیر برطانیہ، پاکستان ہائی کمیشن کینیڈا، واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے کے علاوہ کشمیر انفو برسلز کے زیر اہتمام مختلف ویبی نار اور ویڈیو کانفرنسز سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ طاقتور ممالک کے اسٹرٹیجک اور معاشی مفادات کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے باوجود بھارت کو جوابدہ نہ ٹھہرانا عالمی نظام کی ناکامی ہے۔ پاکستان ہائی کمیشن اوٹاوا اور پاکستان قونصل خانہ ٹورنٹو کی مشترکہ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ ہمیں کشمیر کی تحریک آزادی کو شہری آزادیوں کی بین الاقوامی تحریک میں تبدیل کرنے کے علاوہ بھارت کے خلاف معاشی و اقتصادی پابندیوں کی تحریک شروع کرنا ہو گی کیونکہ صرف اسی صورت میں ہم اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو بولنے اور بھارت کو انسانی حقوق اور کشمیریوں کے بنیادی حق، حق خودارادیت کا احترام کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کو کثیر الجہتی سفارتکاری کے ذریعے حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دنیا کی پارلیمانی قوتوں، عالمی سول سوسائٹی اور میڈیا کو متحرک کر کے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جائز و منصفانہ جدوجہد کے لئے حمایت حاصل کریں۔ بھارت کے خلاف یوم سیاہ منانے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ 27 اکتوبر1947 کے دن بھارت نے کشمیریوں کی منشا اور مرضی کے خلاف ریاست جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا تھا جسے کشمیریوں نے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک تسلیم نہیں کیا اور وہ ہر سال اس دن کو یوم سیاہ منا کر بھارت کے فوجی قبضہ کے خلاف اپنی نفرت اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں اور دنیا کو کشمیر کے حل طلب مسئلہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ویبینار سے کینیڈا میں پاکستان کے ہائی کمشنر رضا بشیر تارر، کمیونٹی کی سماجی رہنما ڈاکٹر فوزیہ علوی، ڈائریکٹر آئی سی آئی ٹی ڈاکٹر ظفر بنگش، ڈاکٹر فرحان مجاہد چک، جسٹ پیس کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مس کرن راڈمین، سیاسی تجزیہ نگار رابرٹ فنطینااور پاکستان کے ٹورنٹو میں قونصل جنرل عبدالحمید نے بھی خطاب کیا۔ تحریک کشمیر برطانیہ کے زیر اہتمام لندن میں بھارتی ہائی کمیشن اور برمنگھم میں بھارتی قونصل خانے کے باہر مظاہرہ کرنے والے شرکاءسے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے برطانیہ کی پارلیمنٹ، حکومت اور سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ وہ بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے اندر ہندو آبادی کو منتقل کرنے اور متنازعہ ریاست کی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے مذموم منصوبے کو رکوانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے بھارت کے یہ اقدامات جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ کشمیریوں کو مکمل تباہی و بربادی سے بچانے اور خطہ کو ایٹمی جنگ سے بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور بھارتی حکومت ایسے ہتھیار فراہم کرنے سے گریز کرے جو کشمیریوں کے قتل عام میں استعمال ہوں یا ایسا سرمایہ نہ فراہم کرے جو کشمیریوں کی معاشی بربادی اور انہیں آزادی سے محروم کرنے کے لئے استعمال ہو۔ صدر آزاد کشمیر نے تحریک کشمیر برطانیہ اور اُس کے صدر راجہ فہیم کیانی کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے برطانیہ اور یورپ میں جاری کوششوں پر انہیں شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ انفو برسلز کے زیر اہتمام ”مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور آبادیاتی اعداد و شمار کی انجینئرنگ“ کے موضوع پر ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کو محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کرنا وہاں کی خوفناک صورتحال کی سنگینی کو کم کر کے پیش کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی نو لاکھ فوج مقبوضہ جموں وکشمیر میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہے جبکہ دنیا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی نظر سے دیکھتی ہے جو درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج بے گناہ شہریوں کو قتل، انہیں زخمی و معذور کر رہی ہے، نوجوانوں کو آنکھوں کی بصارت سے محروم اور انہیں گرفتار کر کے نظر بندی کیمپوں میں منتقل کر رہی ہے۔ خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، بھارت کی فوج پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کے تحت ان تمام جرائم کے باوجود بلا روک ٹوک ہر قسم کے جرائم کرنے میں آزاد ہے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے پرامن سیاسی حل میں گہری دلچسپی لینے اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر یورپی پارلیمنٹ اور پارلیمان کے ارکان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یورپی پارلیمان کے 626 ارکان کی طرف سے پارلیمنٹ میں نصف درجن قراردادوں کا پیش ہونا اور یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کی طرف سے یورپی یونین کے صدر کے نام خط جس میں اُن سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ایک اہم پیشرفت ہے جس کو ہم تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے متعدد بار یورپین پارلیمنٹ ارکان کو آزادکشمیر کے دورہ کی دعوت دی جن میں سے کچھ نے آزادکشمیر کا دورہ کر کے خود مشاہدہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے برخلاف آزاد ریاست میں جگہ جگہ خاردار تاریں ہیں اور نہ ہی فوجی چیک پوسٹیں ہیں۔ لوگوں کو تمام شہری آزادیاں اور بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں ۔ صدر سردار مسعود خان نے انٹرنیشنل انسانی حقوق کمیشن ، برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمیشن اور واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے سفارتخانے کی طرف سے منعقدہ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی برادری مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے لئے تیزی سے اقدامات کرے کیونکہ ریاست پر بھارت کے ناجائز قبضے اور اُس کے ظلم و جبر کی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے جو نہ صرف خطہ بلکہ عالمی امن و سلامتی کے لئے خطرناک ہو گی۔