اسلام آباد۔23مئی (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و قانونی امور عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے، اس کیس میں عمران خان کی گرفتاری خارج ازامکان نہیں ہے، پی ٹی آئی سربراہ سلامتی اداروں پر حملے کرنے کے بعد مغربی حکومتوں سے مدد مانگ رہے ہیں، عمران نیازی اپنی کرپشن چھپانے کیلئے سرکاری و عسکری تنصیبات پر حملہ آور ہوئے، ملک و قوم کے اربوں روپے لوٹ کر اب پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، عمران خان نے ماضی میں بھی نیب نوٹسز کا خاطر خواہ جواب نہیں دیا، ابھی بھی تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہے۔
منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران نیازی القادر ٹرسٹ کیس میں پیش ہوئے، آج کی پیشی سے جو تاثر ملتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ تفتیش میں تعاون نہیں کیا جا رہا جو بھی کیس سے متعلق ریکارڈ مانگا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ میرے پاس نہیں ہے، آپ کیبنٹ ڈویژن یا این سی اے سے رجوع کریں، میرے پاس یہ ریکارڈ میسر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے اور میں القادر ٹرسٹ اور 190 ملین پائونڈ کی اصل کہانی ثبوتوں کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں تاکہ کوئی ابہام نہ رہے، لندن میں ہائیڈ پارک میں ایک اپارٹمنٹ کی ادائیگی ملک ریاض نے کی جب این سی اے کی جانب سے اس ادا شدہ رقم کی تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ وہ ادا شدہ رقم منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے تو انہیں جرمانہ کیا گیا اور اس پراپرٹی ٹائیکون کے بینک اکائونٹس فریز کئے گئے اور وہ جرمانہ اس ٹرانزیکشن کا جو کہ 190 ملین پائونڈ بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر کے ذریعے حکومت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا چونکہ یہ پیسہ پاکستان سے گیا تھا اور یہ حکومت پاکستان اور عوام کی ملکیت ہے لہٰذا اس پیسے کو حکومت پاکستان کو واپس کیا جائے، برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے اس شرط پر یہ معاہدہ کیا کہ یہ 190 ملین پائونڈ سرکاری خزانہ میں جائیں اور پاکستان کے عوام پر خرچ ہو چنانچہ شہزاد اکبر کو اس پیسے کو لانے کیلئے برطانیہ بھیجا گیا چونکہ اس میں خوردبرد کی جانی تھی لہٰذا ایک معاہدہ اور کیا گیا جو بند لفافے میں کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا جس کو رازداری کا معاہدہ کہا گیا، چاہئے تو یہ تھا کہ تمام کابینہ کے اراکین اس معاہدے کو پڑھتے لیکن عمران نیازی نے عجلت میں اس کو منظور کرا لیا حالانکہ اس پر کیبنٹ کے ممبران فیصل واوڈا، طارق بشیر چیمہ اور دیگر کچھ وزراء نے بھی سوال اٹھائے کہ اس معاہدہ کے متعلق بتایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بند لفافے میں جو دستاویزات ہیں وہ میں نے دیکھی ہیں، وہ پیسہ تو حکومت پاکستان کے اکائونٹ میں جانا تھا لیکن اس پراپرٹی ٹائیکون کا حکومت سندھ کے ساتھ چلنے والے کیس کے سلسلہ میں 460 ارب روپے کیلئے سپریم کورٹ نے ایک لائیبلٹی اکائونٹ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اس 460 ارب روپے کے علاوہ دوسرے این سی اے کی جانب سے 190 ملین پائونڈ کا جرمانہ بھی اسی اکائونٹ میں آنا تھا لیکن اس میں ہیرا پھیری یہ کی گئی کہ عمران نیازی اور شہزاد اکبر نے کابینہ کی منظوری کے ساتھ وہ پیسہ سپریم کورٹ کے لائیبلٹی اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دیا تو یہ 190 ملین پائونڈ حکومت پاکستان کو نہ ملے اور نہ ہی عوام پر خرچ کئے گئے۔
عطاء تارڑ نے کہا کہ ایک طرف 190 ملین پائونڈ جرمانہ جو این سی اے نے حکومت پاکستان کو دیا اور دوسری طرف 460 ارب روپے کی الگ سے لائیبلٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون، آئین، ضابطہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ باہر سے پاکستان کا پیسہ واپس لا رہے ہیں اور اسے حکومت پاکستان کے اکائونٹ کی بجائے اس پراپرٹی ٹائیکون کے سپریم کورٹ کے زیر تحت اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دیتے ہیں، اس ڈیل کے عوض 458 کنال اراضی عمران نیازی کو اس ہیرا پھیری کے نتیجہ میں تحفتاً دی جاتی ہے اور وہ اس پر ٹرسٹ بنا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کی دستاویزات پر عمران نیازی اور بشریٰ خان کے دستخط ہیں اور تیسرے دستخط فرح شہزادی المعروف فرح گوگی کے ہیں، ان کے دستخط بطور فرسٹ ٹرسٹی اس میں شامل کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ٹرسٹ کو زلفی بخاری نے شروع کیا اور بعد میں اس کو عمران نیازی، فرح گوگی اور بشریٰ بی بی کو ٹرانسفر کیا گیا، اس ٹرسٹ کی ابتدائی لاگت ایک کروڑ 50 لاکھ سے شروع ہوئی اور مختلف اوقات میں اس ٹرسٹ کے اکائونٹ میں مختلف رقوم آتی رہیں، 458 کنال اراضی پر بننے والے ٹرسٹ کے کاغذات میں 20 سے 25 سٹوڈنٹس جعلی شو کئے گئے ہیں، اس کا چارٹر بھی جعلی ہے، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ساتھ اس کا معاہدہ کرایا گیا حالانکہ یہ یونیورسٹی بھی نہیں ہے، ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس کو یونیورسٹی کا درجہ بھی نہیں دیا بلکہ اس کو ایک ایفی لیٹ کالج بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران نیازی آج کہہ رہے ہیں کہ مجھے اس کا علم نہیں اور میرے پاس کاغذات بھی نہیں، نیازی صاحب آپ کو ضمانت اسی لئے ملی تھی کہ آپ تفتیش میں تعاون کریں جو آپ نہیں کر رہے، آپ قوم کو بتائیں یہ کتنا بڑا ڈاکہ آپ نے مارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے میں اس بزنس ٹائیکون اور ان کے دیگر انویسٹرز کیلئے ایک قانون بنایا گیا کہ بغیر زمین کے ہائوسنگ سوسائٹی کیلئے این سی او جاری کر دیا جائے گا جس کو بعد ازاں جسٹس وقار سیٹھ مرحوم نے کالعدم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران نیازی آج بھولے بن رہے ہیں حالانکہ انہوں نے احتساب عدالت کے جج کے سامنے پیش ہو کر بتایا تھا کہ میں یہ پیسہ پاکستان لے کر آیا تھا، اگر برطانیہ میں یہ کیس لڑا جاتا تو عوام کے کئی کروڑ روپے ضائع ہو جاتے، میں چاہتا تھا کہ یہ پیسہ پاکستان آئے لیکن اگلی بات گول کر گئے کہ یہ پیسہ حکومت پاکستان کے اکائونٹ میں نہ آئے اور نہ ہی عوام پر خرچ کیا جائے بلکہ یہ پیسہ سپریم کورٹ کے لائیبلٹی اکائونٹ میں ٹرانسفر کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مزید دستاویزات بھی حاصل کر رہے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ مارا گیا، عمران نیازی نے اپنے دست راست شہزاد اکبر کے ذریعے یہ ہیرا پھیری کی، عمران نیازی تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے بلکہ قوم کو بغاوت پر اکساتے رہے ہیں اور سلامتی اداروں پر حملے کرتے رہے ہیں، ان تمام کی وجہ 190 ملین پائونڈ کے ڈاکے کو چھپانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان حقائق سے نہ بچا جا سکتا ہے نہ چھپا جا سکتا ہے، دیر سویر اس سب کا حساب دینا ہو گا،
عمران نیازی آج بھی سلامتی اداروں پر حملے کرنے کے بعد مغربی حکومتوں سے مدد مانگ رہے ہیں اور اس حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہہ رہے ہیں تو پھر امریکی کانگریس کی خاتون سے کیوں مدد مانگ رہے ہیں، آپ غلام بھی ہو، چور بھی ہو، ہمارے پاس جو ثبوت آئے ہیں ان سے آپ بچ نہیں سکتے، آج تو تفتیش کا پہلا قدم تھا آگے بھی مزید تفتیش ہو گی، گرفتاری کو خارج ازامکان نہیں کیا جا سکتا، شہزاد اکبر اس کے مرکزی ملزم ہیں جن کو بیشتر نوٹس جا چکے ہیں۔