اسلام آباد۔28جون (اے پی پی):الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے آیینی بنچ کے حالیہ فیصلے کے بعد میڈیا پر بعض حلقوں کی جانب سے کمیشن کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کو حقائق کے برعکس اور جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کسی بھی قسم کے سیاسی دبائو یا سستی مقبولیت کی بجائے آئینی تقاضوں ، قانونی دائرہ کار اور شواہد کی بنیاد پر اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے ، وہ کسی قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے مرعوب ہونے والا ادارہ نہیں ۔ ہفتہ کوالیکشن کمیشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں ترجمان الیکشن کمیشن نے کہاکہ ایسے عناصر الیکشن کمیشن کو بلا جواز تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تاہم تاریخی حقائق اور اعلیٰ عدلیہ کے متعدد فیصلے اس امر کے ناقابل تردید شواہد فراہم کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ہمیشہ اپنے فرائض آئین و قانون کی روشنی میں ادا کیے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے مؤقف کی بارہا عدالتی توثیق کی گئی ہے۔ مثلاً سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری اور ہاتھ اٹھانے کے طریقۂ کار کے متعلق الیکشن کمیشن کے مؤقف جو کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے عین مطابق تھا کو سپریم کورٹ کے بنچ نے جس کی سربراہی اس وقت کے معزز چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کر رہے تھے، نے برقرار رکھا ۔ڈسکہ الیکشن میں کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے بنچ جس کے سربراہ اس وقت کے معزز چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال تھے نے نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اسے ایک آئینی اقدام تسلیم کیا۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کی قانونی تشریح کو بھی سپریم کورٹ کے بنج نے اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں درست قرار دیتے ہوئے اس کی توثیق کی۔
مزید برآں آل پاکستان مسلم لیگ کی ڈی لسٹنگ کے کیس میں جب الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر اے پی ایم ایل کو ڈی لسٹ کر دیا اور اس فیصلے کو اے پی ایم ایل کیطرف سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا اور اس کے بعد کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی متعدد جماعتوں کو ڈی لسٹ کر دیا جو قانون پر عمل کرنے سے قاصر رہیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن ٹربیونلز سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل کو منظور کیا اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار نہ رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کے مؤقف کو تسلیم کیا۔
ترجمان نےکہا کہ اسی طرح حالیہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں بھی پہلے پشاور ہایکورٹ نے اور اب عدالت عظمیٰ کے آیینی بنچ نے الیکشن کمیشن کے مؤقف کو آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اس کو برقرار رکھا ۔یہ تمام بیان کردہ اور انکے علاوہ متعدد دیگر عدالتی فیصلے اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ الیکشن کمیشن کسی بھی قسم کے سیاسی دباؤ، عوامی شور یا سستی مقبولیت کے لیے اپنے فیصلوں میں ترمیم نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اور صرف آئینی تقاضوں، قانونی دائرہ کار اور شواہد کی بنیاد پر اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔
یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو کسی سیاسی جماعت یا مفاداتی گروہ کے اوچھے ہتھکنڈوں سے مرعوب ہونے والا ادارہ نہیں لہذا اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا ذمہ دار الیکشن کمیشن کو ٹھہرانے کی روش کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے۔