اسلام آباد۔25اپریل (اے پی پی):ماہر تعلیم اور رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے کہا ہے کہ آج کی عالمی دنیا میں گلوبلائزیشن ایک جدید نوآبادیاتی نظام کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو عالمی اداروں، میڈیا اور علمی حلقوں میں گہرائی تک پیوست ہے۔ یہ شعبے بالواسطہ طور پر فکری آزادی کو مجروح کرتے، سماجی ڈھانچوں کو بگاڑتے اور انسانی تعلقات کو خودغرض انفرادیت میں محدود کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد میں "آج کی دنیا اور انسانیت کا مستقبل” کے عنوان سے چھ لیکچرز پر مشتمل سیریز کے افتتاحی لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ یہ سلسلہ مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائیر ایجوکیشن (برطانیہ) اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا کے اشتراک سے منعقد کیا جا رہا ہے تاکہ مسلم دنیا کو درپیش فکری اور نظریاتی چیلنجز پر سنجیدہ مکالمے کو فروغ دیا جا سکے۔ لیکچر میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا سے ڈاکٹر ثمیم عشامہ اور اسلامک فائونڈیشن برطانیہ سے یوسف فاروق نے بھی شرکت کی۔
ڈاکٹر انیس احمد نے کہا کہ سطحی حل مسائل کو حل کرنے کی بجائے الجھاتے ہیں۔ موجودہ عالمی ماحول "نامعلوم دشمن کے خوف” کو فروغ دیتا ہے، جو اعتماد سازی اور فکری خودمختاری میں رکاوٹ بنتا ہے۔ افراد کی فکری شناخت ان نظریاتی سانچوں کے تحت تشکیل پا رہی ہے جو حقیقی تبدیلی کے بجائے جمود کو فروغ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بڑی برائی کا جواب چھوٹی برائی سے دینے پر اکتفا کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ فکری بنیادوں میں انقلابی تبدیلی لائیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ مسلم امہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علمی و فکری سرچشموں کی بازیافت کرے کیونکہ علم کو کس زاویے سے دیکھا، تلاش کیا اور استعمال کیا جاتا ہے اور یہی کسی قوم کی دنیاوی و اخروی سمت متعین کرتا ہے۔ اسلامی روایت میں علم کو انسانی پیداوار نہیں بلکہ اللہ کی عطا تصور کیا جاتا ہے اور انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عطا کردہ علم کو امانت داری کے ساتھ سمجھ کر اس پر عمل کرے۔ ڈاکٹر انیس احمد نے کہا کہ یہی فہم ایک ایسا اخلاقی زاویہ فراہم کرتا ہے جس سے ہر چیز کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ معرفت، حکمت اور ہدایت جیسے قرآنی تصورات مسلمانوں کی فکری اور اخلاقی سمت متعین کرتے ہیں اور یہی ایک نئی فکری و اخلاقی بصیرت کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ میڈیا کی دنیا ہے جہاں فوری علم کو فاسٹ فوڈ کی طرح ہلکا اور سطحی سمجھا جاتا ہے، جو ڈیجیٹل میڈیا اور عالمی بیانیوں سے متاثرہ علم کی گہرائی پر تنقید ہے۔ ڈاکٹر انیس کا کہنا تھا کہ اگرچہ زبان ابلاغ کا ایک بنیادی ذریعہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی شعور اور نفسیات کی گہری تفہیم بھی ضروری ہے جو ایک ہمہ گیر انسانی پہلو رکھتی ہے۔ چاہے سماج اجتماعی ہو یا انفرادی، انسانی عظمت اور وقار کا تحفظ ہمیشہ مرکزی حیثیت رکھنا چاہیے۔ انہوں نے انفرادیت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر خبردار کرتے ہوئے کہاکہ معاشرے کا مرکز اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف منتقل ہو چکا ہے، جس کے سنگین نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اس تبدیلی کو انہوں نے مابعد جدیدیت سے جوڑا اور کہا کہ اس سے خاندان جیسی بنیادی سماجی اکائی شدید متاثر ہو رہی ہے کیونکہ خاندان ہی وہ یونٹ ہے جو کسی معاشرے کو بناتا یا بگاڑتا ہے۔ اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے امید بھرا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مکمل غیرجانبداری ممکن نہیں لیکن تنقیدی فکر ہمیشہ ممکن ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ فکری احتساب، جستجو اور با مقصد امید پر مبنی طرز فکر کو فروغ دیں۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=588047