امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی جہاز وائجر 1 زمین سے 20 ارب ، وائجر 2 سترہ ارب کلو میٹر کے فاصلے پر پہنچ گیا،دونوں سے ریڈیو سگنل موصول ہونے اور واپس جانے میں باالترتیب 38 گھنٹے اور 30 گھنٹے لگتے ہیِں، رپورٹ

342
NASA
NASA

لاس اینجلس۔ 21 ستمبر (اے پی پی) امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی جہاز وائجر 1 زمین سے 20 ارب جبکہ وائجر 2 سترہ ارب کلو میٹر کے فاصلے پر پہنچ گیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 5 ستمبر 1977 کو لانچ کئے جانے والے وائجر 1 اور 20 اگست 1977 کو لانچ کئے جانے والے وائجر 2 پر نصب مواصلاتی اور دیگر آلات ابھی تک کام کر رہے ہیں اور مختلف اجرام فلکی بارے ڈیٹا زمین پر ارسال کر رہے ہیں۔گذشتہ 40 برسوں کے دوران دو وائجر خلائی جہازوں نے سیارہ مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے ان دنیاو¿ں کے تفصیلی مناظر زمین پر بھیجے جن میں برف سے ڈھکے، آتش فشاو¿ں سے اٹے اور ایندھن پر مشتمل سموگ سے بھرے چاند بھی شامل ہیں۔ ان مشنز نے زمین پر ہمارے نکتہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے، اور اپنے ساتھ منسلک سنہرے گرامو فون ریکارڈز کے ساتھ یہ انسانی تہذیب کو اپنے ساتھ ستاروں تک بھی لے جا رہے ہیں۔2013 میں وائجر 1 ہمارے نظامِ شمسی کی حدود سے نکل گیا تھا۔وائجر 2 ایک مختلف راستے پر ہے اور یہ زمین سے 17 ارب کلومیٹر دور ہے۔روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے ایک ریڈیو سگنکل کو وائجر 1 سے زمین تک آنے اور واپس وائجر 1 تک جانے میں 38 گھنٹے لگتے ہیں جبکہ وائجر 2 کے لیے یہ وقت 30 گھنٹے کے لگ بھگ ہے۔یہ سگنل ناسا کا ڈیپ سپیس نیٹ ورک وصول کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک دنیا بھر میں نصب بڑی بڑی سیٹلائٹ ڈشوں پر مبنی ہے جن کا کام دور دراز خلائی جہازوں سے ڈیٹا وصول کرنا ہے حصول ہے۔وائجر خلائی جہازوں کو کیلیفورنیا میں واقع جیٹ پروپلشن لیبارٹری سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔خلائی جہاز پر نصب ٹرانسمیٹر 12 سے 20 واٹ کی طاقت سے چلتا جوکسی ریفریجریٹر میں لگے بلب جتنی توانائی ہے۔وائجر منصوبے پر کام کرنے والے سائنسدان ایڈ سٹون کہتے ہیں کہ وائجر 1 اب اس مادے کو چھو رہا ہے جو ہماری زیادہ تر کائنات میں بھرا ہوا ہے۔ایڈ سٹون کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے اور وہ 1972 میں جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں وائجر کے ڈیزائن اور اس پر کام شروع ہونے سے اب تک اس مشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس مشن نے زمین سے باہر موجود دنیا کے بارے میں ہمارے نکتہ نظر کو وسیع کیا ہے۔ ہم جہاں بھی دیکھتے ہیں ہمیں نظر آتا ہے کہ قدرت بہت زیادہ متنوع ہے۔ 1979 میں اپنی لانچ کے 18 ماہ بعد وائجر 1 اور وائجر 2 نے سیارہ مشتری کا جائزہ لینا شروع کیا اور بے مثال تفصیل سے اس کے بادلوں کی تصاویر اتاریں۔ وائجر خلائی جہازوں کی مدد سے معلوم ہوا کہ یہ چاند پتھروں کے ٹکڑوں سے کہیں زیادہ تھے۔ سٹون بتاتے ہیں کہ وائجر خلائی جہازوں سے پہلے تک ہم یہ سمجھتے تھے کہ آتش فشاں صرف زمین پر پائے جاتے ہیں۔ مگر پھر ہم مشتری کے چاند آئیو کے قریب سے گزرے جو حجم میں ہمارے چاند جتنا ہی ہے اور اس پر زمین سے 10 گنا زیادہ آتش فشانی سرگرمی ہوتی ہے۔ایڈ سٹون کہتے ہیں کہ وائجر نے ہمارا نظامِ شمسی کے بارے میں وہ نکتہ نظر بالکل بدل دیا جس میں زمین ہی سب سے زیادہ اہم سیارہ تھی۔ وائجر سے پہلے ہم سمجھتے تھے کہ واحد مائع سمندر صرف زمین پر ہے مگر پھر ہم نے مشتری کے چاند یوروپا کی دراڑ زدہ سطح کو دیکھا اور بعد ازاں یہ پایا گیا کہ اس کی سطح کے نیچے مائع پانی کا سمندر ہے۔ نئے چھلے اور ایک اور چاند دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ وائجر خلائی جہاز نے زحل کے چاند ٹائٹن کا بھی جائزہ لیا۔ اس کی فضا گاڑھے پیٹرو کیمیکل سے بنی ہے اور یہاں پر میتھین کی بارش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ایک اور چاند اینسیلاڈس کی قریبی تصاویر بھیجیں۔ برطانیہ کے حجم جتنی یہ چھوٹی سی برفیلی دنیا نظامِ شمسی کا سب سے زیادہ روشنی منعکس کرنے والا جسم ہے۔ دونوں ہی چاندوں کا بعد میں کیسینی ہوئیگنز مشن نے جائزہ لیا اور اب سائنسدان اینسیلاڈس کو زندگی کی موجودگی کے لیے موزوں ترین جگہوں میں سے قرار دیتے ہیں۔دی پلینٹری سوسائٹی کی سینیئر مدیر ایمیلی لکڑاوالا کے مطابقان تمام چاندوں میں سے ہر ایک منفرد ہے۔ وائجر سے معلوم ہوا کہ ہمیں زحل کے چاندوں کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے یہاں کیسے مشن بھیجنے چاہییں۔نومبر 1980 میں وائجر 1 سیارہ زحل کو پیچھے چھوڑتا ہوا نظامِ شمسی سے باہر جانے کے اپنے طویل سفر پر نکل پڑا۔ دو ماہ کے بعد وائجر 2 نے نظامِ شمسی کے سب سے باہری سیاروں کے لیے اپنی راہ پکڑی۔ 1986 میں یہ یورینس پہنچا اور اس نے گیس سے بنے اس عظیم الجثہ سیارے اور اس کے چھلّوں کی اولین تصاویر کھینچیں اور اس کے 10 نئے چاند دریافت کیے۔ایڈ سٹون کے مطابق جب وائجر نیپچون کے چاند ٹرائٹن کے پاس سے گزرا تو ہم نے نائٹروجن کے فوارے پھوٹتے ہوئے دیکھے۔ ایک کے بعد ایک ہم نے زمین پر ہونے والی چیزوں کو پورے نظامِ شمسی میں ہوتے ہوئے دیکھا۔انسانیت کی تاریخ میں شاید ہی کسی مہم نے ان دونوں وائجر خلائی جہازوں جتنی سائنسی کامیابیاں حاصل کی ہوں مگر ان سے ہمیں بے پناہ ٹیکنالوجیکل ورثہ بھی حاصل ہوا ہے۔ایڈ سٹون کے مطابقیہ پہلا کمپیوٹر کنٹرولڈ خلائی جہاز ہے۔ یہ خود ہی اڑتا ہے، خود ہی کام کرتا ہے، خود ہی خود کو چیک کرتا ہے اور خود سے ہی بیک اپ نظام پر منتقل ہو سکتا ہے۔ 14 فروری 1990 کو وائجر 2 نے اپنے کیمروں کا ر±خ زمین کی طرف کر کے پورے نظامِ شمسی کی تصویر لی۔ اس پوری تصویر میں زمین صرف ایک پکسل پر مبنی پھیکے سے نقطے کی مانند نظر آتی ہے جس سے ہمیں کائنات میں اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ خلا میں تیرنے والی ایک نہایت چھوٹی سی چیز ہے اور زمین ہی وہ جگہ ہے جہاں وہ تمام زندگی موجود ہے جسے ہم جانتے ہیں۔ یہ ایک قیمتی تصویر ہے جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ کائنات میں ہمارا مقام کس قدر نازک اور چھوٹا ہے۔ 2013 میں وائجر 1 نے وہ سرحد عبور کر لی جو سورج کے پیدا کردہ مقناطیسی میدان اور ستاروں کے درمیان موجود خلا کے درمیان ہے۔وائجر 1 اب خلا میں چلتا ہی جا رہا ہے اور آنے والے چند سالوں میں وائجر 2 بھی نظامِ شمسی سے باہر نکل جائے گا۔ چونکہ یہ وائجر 1 سے مختلف زاویے سے نظامِ شمسی سے باہر نکلے گا، اس لیے سائنسدانوں کو اس کے ذریعے شمسی بلبلے کی ساخت کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی۔وائجر کی پروگرام مینیجر سوزی ڈوڈ کہتی ہیں کہ شاید اگلے 10 سالوں میں کسی دن وائجر 1 اور 2 کو بند کرنا پڑے گا۔ مگر ایک طرح سے دیکھیں تو وائجر مشن شاید ہمیشہ چلتا رہے اور شاید یہ انسانی تہذیب سے بھی زیادہ عرصے تک قائم رہے۔ایڈ سٹون کہتے ہیں کہ وائجر خلائی جہاز اربوں سالوں تک کہکشاں کے گرد گردش کرتے رہیں گے۔