امن خراب کرنے والے مسترد: ‏پاکستان۔ افغانستان میں دیرپاامن واستحکام کا داعی

100

اسلام آباد۔18ستمبر (اے پی پی):امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں سہولت کاری اور افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد انخلا ء کے عمل سے لے کر جامع حکومت کی تشکیل تک افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے واحد مقصد کے حصول کی کاوشوں میں پاکستان پیش پیش رہا ہے جبکہ بگاڑ پیدا کرنے والوں کو رد کر دیا گیا۔ افغان امور سے متعلق سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق 26 سو کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد اور قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے ، افغانستان میں عدم استحکام سے دہشت گردی ، پناہ گزینوں کی آمد اور بڑے پیمانے پر معاشی نقصان کی صورت میں پاکستان سب سے زیادہ متاثرہواہے۔

پاکستان نے طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پربیٹھنے کیلئے قائل کیا جس کا حتمی نتیجہ امن معاہدے پراتقاق رائے کی صورت میں سامنے آیا،دنیا پاکستان کے اس کردارکی معترف ہے۔ افغانستان اور خطے کی بعض قوتیں اگرچہ پاکستان کی کوششوں کو شک کی نظر سے دیکھتی اور ان کاوشوں کوکمزور کرتی رہیں تاہم پاکستان نے افغانستان میں دیرپا قیام امن اوراستحکام کے حوالہ سے اپنا مثبت اور تعمیری کردار کبھی نہیں چھوڑا ،کیونکہ پاکستان سمجھتا رہا کہ ایسانہ کرنے کی صورت میں وہ خودعدم استحکام کا دوسرا سب سے زیادہ شکار ہوگا ، اسی طرح افغانستان میں امن واستحکام سے افغانستان کے بعد سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔

افغانستان میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد پاکستان صرف ایک ایسا ملک تھا جس نے رضاکارانہ طور پر ہزاروں افراد کو کابل سے اسلام آباد تک انخلا میں معاونت فراہم کی ، ان افراد کو رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کی گئی اور انہیں اپنی منزلوں تک روانگی کیلئے انتظامات کویقینی بنایا ۔ انخلا کے مشن کی تکمیل کے بعد پاکستان کی قیادت تمام کمیونٹیز کی نمائندگی کرنے والی ایک جامع حکومت کے قیام کے وعدے پرعمل درآمد کیلئے طالبان پر زور دینے پراپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔

تاجکستان کے دوروزہ دورہ کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹرپرجاری ٹویٹس میں کہاہے کہ افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کیلئے انہوں نے طالبان سے مذاکرات کاآغازکردیاہے ۔وزیراعظم نے کہاکہ دوشنبہ میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنمائوں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف سے طویل بات چیت کے بعد انہوں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کیلئے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ 40 برس کی لڑائی کے بعد (ان دھڑوں کی اقتدار میں) شمولیت ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہو گی جو محض افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد سے لیکراب تک پاکستان دنیا کو حالات خراب کرنے والوں کے کردار کے بارے میں خبردار کرتا چلا آ رہا ہے ، یہ کردار افغانستان میں کبھی امن نہیں چاہتے ۔

ایک ایسے منظر نامے میں جب تمام علاقائی طاقتیں افغانستان میں قیام امن واستحکام کیلئے کوششیں کررہی ہیں ایسے میں بھارت غیر معمولی انداز میں آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں بھارت کے مفادات کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ افغانستان میں امریکی موجودگی کا سب سےزیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک بھارت تھا اوراب بھارتی میڈیا انخلا پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ امریکی انخلا کو ناکامی قرار دیتے ہوئے انخلا کے فیصلے کو ذلت آمیز شکست کے طور پر پیش کرنے اور امریکہ کو تنازعے کے پرامن حل کے خلاف اکسانے کی تگ ودومیں ہے۔ درحقیقت بھارت 2001 سے افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال کرتا چلاآرہاتھا، بھارت نے اس دوران بنیادی ڈھانچہ میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری،افغان فورسز کی تربیت اوردیگرمنصوبوں کے ذریعہ افغانستان میں مستقل قدم جمانے اور اپنے کھلے عزائم کی تکمیل کیلئے اپنی بھاری موجودگی برقراررکھی تھی۔

پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے سامنے بھارت کی جانب سے پاکستان کو منظم اندازمیں دہشت گردی کے حملوں، علیحدگی پسندوں کی معاونت اورہائبرڈ وففتھ جنریشن وارفئیر کے ذریعہ عدم استحکام کا شکار کرنے کے منصوبوں کے بارے میں تفصیلی شواہد پرمبنی دستاویزات پیش کی ہیں۔بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں طالبان مخالف قوتیں اقتدار میں رہیں تاکہ وہ افغان سرزمین کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکے۔

تاہم ، طالبان کی اقتدار میں واپسی نے بھارت کو ایک بڑا سفارتی دھچکا لگایا ہے اور وہ افغانستان کے حوالہ سے اس خطے کا سب سے کمزورکھلاڑی بن گیا ہے ۔نئی دہلی کی جواہرلال نہرویونیورسٹی کے ہیپی مون جیکب کاکہنا ہے کہ بظاہربھارت افغانستان کے حوالہ سے کھیل سے باہرجاچکاہے، اب بھارت کویہ خوف ہے کہ افغانستان میں پاکستان اورچین کااثرورسوخ بڑھ جائیگا۔

بھارت کبھی بھی افغان امن مذاکرات کے حق میں نہیں رہاہے، امریکی انخلانے پوری دنیاکو افغان بحران کے پرامن حل کے امکانات کے حوالہ سے ابہام کا شکارکیا ہے۔ بھارتی میڈیا میں انخلا کے امریکی فیصلہ کے حوالہ سے ”عزت خاک میں مل گئی“، ”20 سال مشن کی ناکامی“ اور”ذلت آمیزواپسی“ جیسی اشتعال انگیزاصطلاحات استعمال ہورہی ہیں۔بھارت نے افغان فورسز کی صلاحیتوں کے بارے میں دنیا کے سامنے ایک جعلی اورفرضی تصویرپیش کی لیکن یہ جعلسازی اس وقت عیاں ہوگئی جب تقریباً پوراافغانستان بغیرکسی بڑی مزاحمت کے طالبان کے کنٹرول میں آیا۔

بھارت کے تمام ترپراپیگنڈہ اورتدبیروں سے قطع نظرپاکستان افغانستان میں دیرپا قیام امن اوراستحکام کے مشن کی پیروی کرتا رہا ، پاکستان بارباردنیا پرزوردے رہاہے کہ وہ جنگ سے متاثرہ ملک کواکیلا نہ چھوڑے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا کے پاس افغانستان کو شامل کرنے یااسے تنہا چھوڑنے کے دو واضح انتخاب ہیں۔

افغانستان کوتنہاچھوڑنے سے غیر مستحکم صورتحال پیداہوگی ، اس سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگا منشیات کی اسمگلنگ اور بین الاقوامی منظم جرائم بڑھیں گے اور، پڑوسی ممالک بھی ان اثرات کی زدمیں آئیں گے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کا موقف ہے کہ ملک کے تمام سماجی ، سیاسی ، نسلی اور مذہبی گروہوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان میں ریاستی طاقت کی قانونی حیثیت کو بحال کرنا ضروری ہے تاکہ حالات کو معمول پر لایا جائے ، امن بحال ہو ، معاشی ترقی ہوں، دہشت گردی کا مقابلہ کیا جائے اور انتہا پسندی ومنشیات اوردیگرجرائم کا موثرطریقے سے سدباب ہوسکے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں رکن ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سیاسی اور سفارتی ذرائع، بین الاقوامی قانون کے مطابق تسلیم شدہ اصولوں اور ضوابط پر قائم رہنا علاقائی تنازعات کے حل کا واحد راستہ ہے تاہم ایس سی اوکا رکن ملک ہونے کے باوجودبھارت تنظیم کے مینڈیٹ کی نہ صرف خلاف ورزی کر رہا ہے بلکہ افغانستان اور خطے میں امن کو خراب کرنے کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ بھارت نے 2020 میں روس میں ایس سی او انسداد دہشت گردی مشق قفقازمیں حصہ نہیں لیا تھا جس میں چین اور پاکستان کی افواج نے حصہ لیاتھا۔

دوسری جانب بھارت پاکستان کے اقتصادی اورسلامتی کے مفادات کونقصان پہنچانے کی کوششوں میں ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارت کی انٹلی جنس ایجنسیوں اوراقوام متحدہ کی فہرست میں شامل دہشت گردتنظیموں جیسے جماعت الاحرار، تحریک طالبان پاکستان، بلوچ لیبریشن آرمی ،بلوچستان لیبریشن فرنٹ اوربلوچ ری پبلکن آرمی کے درمیان تعلقات کار میں اضافہ ہواہے۔

بھارت نے گزشتہ تین برسوں کے دوران ان تنظیموں کو تقریبا 22 ارب روپے (تقریبا 9 91 ملین ڈالر) کے فنڈز فراہم کئے ہیں ۔ بھارت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کونقصان پہنچانے کیلئے پاکستان میں 700 افراد پر مشتمل ملیشیا کھڑی کرنےکے لیے 80 ارب روپے (تقریبا 695 ملین ڈالر) مختص کئے ہیں۔بھارت دولت اسلامیہ (آئی ایس آئی ایس) کی سرپرستی کرتے ہوئے اس ضمن میں چھ تربیتی کمیپ بھی چلارہاہے۔ ان میں سے ایک کیمپ غیرقانونی طورپربھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر(گلمرگ) چار کیمپ راجھستان (رائے پور،جودھپور، انوپ گھر، بیکانیر) اورایک اترکھنڈ(چاکراتا) میں قائم ہیں، اس سے بھارت کی پاکستان کے خلاف نہ ختم ہونے والی گھٹیا حرکی جنگ کے عزائم کی عکاسی ہورہی ہے۔

افغانستان کے سابق وزیراعظم اورحزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے بھی بھارت سے کہاہے کہ وہ کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد آزادی کے انتقام میں افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے باز رہے اوربین الاقوامی ایشوز پراپنی توجہ مرکوز رکھے۔