انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں، اکا دکا واقعات کے تدارک کے لئے شکایات پر فوری فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں، ترجمان الیکشن کمیشن

133
Election Commission
Election Commission

اسلام آباد۔12فروری (اے پی پی):الیکشن کمیشن آف پاکستان نے متعدد چیلنجز کے باوجود عام انتخابات کا پرامن اور احسن انداز میں انعقاد یقینی بنایا جس کا اعتراف سول سوسائٹی تنظیموں، مقامی و عالمی مبصرین اور میڈیا نے بھی کیا ، الیکشن کمیشن انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے تاہم اکا دکا واقعات سے انکار نہیں جس کے تدارک کے لئے متعلقہ فورمز موجود ہیں اور الیکشن کمیشن ان دنوں میں بھی دفتری اوقات اور دفتر کے بعد بھی دیر تک ایسی شکایات کو وصول کر رہا ہے اور ان پر فوری فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں۔

پیر کو ترجمان الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق انتخابات کے انعقاد سے پہلے اور انتخابی عمل کے دوران الیکشن کمیشن کو بے پناہ چیلنجز درپیش تھے جن سے عہدہ برآ ہونے کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف اقدامات عمل میں لائے گئے،اس حوالے سے یہ بات زبان زدعام تھی کہ انتخابات کا انعقاد مقررہ تاریخ پر نہیں ہو پائے گا، الیکشن کمیشن نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے تمام ممکن عملی اقدامات کئے اور انتخابات مقررہ تاریخ پر کرائے۔ 8 فروری کے انتخابات کے کامیاب انعقاد کے لئے الیکشن کے عمل کو پرامن اور منظم رکھنا، پولنگ عملے کی زندگیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا، پولنگ میٹریل کی بحفاظت نقل و حمل کو محفوظ بنانا اور درست نتائج کی ترتیب و تدوین انتہائی اہم ترجیحات تھیں جنہیں بقیہ تمام عوامل پر مقدم رکھا گیا اور سکیورٹی کے چیلنجز کے باوجود پر امن پولنگ کے انعقاد کو یقینی بنایا گیا۔

نتائج میں تیزی کی خاطر انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنا یا نتائج کی درستگی کو مشکوک بنانا نامناسب تھا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات بالخصوص انتخابات کے نزدیک مختلف مقامات پرسکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کی شہادت نے انتخابات کے انعقاد کو ایک چیلنج بنا دیا،ایسی صورتحال میں انتخابی عمل اور بالخصوص نتائج کی تیزی کے لئے انسانی جانوں کو خطرات میں جھونکنے سے پورے انتخابی عمل کے سبو تاژ ہونے کا خطرہ موجود تھا جس کے تدارک کے لئے ترجیحی اقدامات کئے گئے۔

سکیورٹی اداروں کے مشورہ پر وفاقی حکومت کی جانب سے موبائل فون کی بندش کے علاوہ پولنگ کے عمل کو پرامن اورمنظم رکھنے اور پولنگ عملے اور پولنگ میٹریل کی حفاظت کے لئے گروپوں کی صورت میں سکیورٹی کے حصار میں نقل و حمل کو یقینی بنایا گیا تاہم موبائل نیٹ ورک کی عدم دستیابی کے باعث رابطہ نہ ہونے، پولنگ سٹیشنوں کے طویل فاصلوں اور دور دراز جگہوں پر واقع ہونے، رات کے اندھیرے میں سفر ،بعض علاقوں میں موسم کی شدت اور برف کی موجودگی اور بعض مقامات پر شاہراہوں پر ہارنے والے امیدواروں کے حامیوں کے جانب سے دھرنے دیئے جانے کے باعث پولنگ عملے کو نقل و حمل میں مشکلات پیش آئیں،بلوچستان کے بعض علاقوں میں پولنگ عملے اور پولنگ میٹریل کی نقل و حمل کے لئے ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرنا پڑے۔

ملک کے کئی حصوں میں سکیورٹی کی صورتحال اور کوآرڈی نیشن میں آسانی کے لئے پانچ سے چھ ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر ایک ہی جگہ پر بنائے گئے تاہم ان دفاتر پر جہاں پولنگ عملے کی آمد سے رش بڑھا وہاں کئی جگہوں پر ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر کے سامنے بے پناہ ہجوم بھی اکٹھا ہوا جس کے باعث پولنگ عملے کو پولنگ میٹریل جمع کرانے میں مشکلات پیش آئیں جن کا انتخابی نتائج کی ترتیب و تدوین پر بھی فرق پڑاتاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن علاقوں میں انتخابی نتائج میں تاخیر بھی ہوئی وہاں نتائج کا ملا جلا رحجان رہا اور کسی ایک جماعت کو کسی طور پر فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا۔

ای ایم ایس کا بنیادی کام آر او کے دفاتر میں پریذائیڈنگ آفیسرزکے ذریعے جمع کرائے گئےنتائج کی تیاری اور تدوین تھا اور فارم۔47 (غیر حتمی نتیجہ) تیار کر کے نتائج کا اعلان کرنا تھا۔پریذائیڈنگ آفیسرز کو پولنگ سٹیشن پر فارم۔45 تیار کر کے اسے اپنے موبائل فون کی مدد سے الیکٹرانک طریقے سے اپنے آر او کو بھیجنا تھا۔نیز الیکشنز ایکٹ2017 کے سیکشن 90 کے تحت پریزائیڈنگ آفیسر نے اپنے ریٹرننگ آفیسر کے دفتر ذاتی طور پر پہنچنا تھا۔

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آر او کے دفاتر میں نصب ای ایم ایس کا نظام کنیکٹوٹی پر منحصر نہیں تھا اور ای ایم ایس نے آر او کے دفتر میں تسلی بخش کام کیا۔ تاہم پریذائیڈنگ آفیسرز کے فونز میں انسٹالڈ ای ایم ایس موبائل ایپ کو فارم۔45 الیکٹرانک طور پر بھیجنے کے لئے سیلو لر کنیکٹوٹی کی ضرورت تھی چونکہ سیلولر سگنلز کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا تھا اس لئے پریذائیڈنگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرز کو الیکٹرانک ڈیٹا بھیجنے سے قاصر رہے

۔مزید یہ کہ معمول کی کوآرڈینیشن اور انتظامی نقل و حمل کے مجموعی عمل کو موبائل سگنلز کی بندش نے بری طرح متاثر کیا، جو کہ مزید تاخیر کا باعث بنا۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ 2018ء کے جنرل الیکشن میں پہلا نتیجہ صبح 4 بجے موصول ہوا جبکہ 2024ء میں پہلا نتیجہ رات 2 بجے موصول ہوا۔اسی طرح 2018 میں نتائج کی تدوین تقریباً 3 دن میں مکمل ہوئی جبکہ اس مرتبہ کچھ حلقوں کے علاوہ ڈیڑھ دن میں انتخابی نتائج مکمل ہوئے۔

ان مشکلات اور مسائل کے باوجود الیکشن کمیشن 8 فروری کو الیکشن کے عمل کو پرامن اور منظم رکھنے میں کامیاب رہا۔یہ ایک بہت بڑا آپریشن تھا جو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا جس کا اعتراف سول سوسائٹی تنظیموں، مقامی و عالمی مبصرین اور میڈیا نے بھی کیا اور پولنگ کے انتظامات، پولنگ عملے کی تربیت، پولنگ سٹیشنوں پر نظم و ضبط اور عوام کی ایک بڑی تعداد کے ووٹنگ کےعمل میں شریک ہونے کو سراہا جو انتخابی عمل کی کامیابی کی دلیل ہے۔

الیکشن کمیشن انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے تاہم اکا دکا واقعات سے انکار نہیں جس کے تدارک کے لئے متعلقہ فورمز موجود ہیں اور الیکشن کمیشن ان دنوں میں بھی دفتری اوقات اور دفتر کے بعد بھی دیر تک ایسی شکایات کو وصول کر رہا ہے اور ان پر فوری فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں۔الیکشن کمیشن انتخابات کے پرامن انعقاد پر نگران وفاقی حکومت، نگران صوبائی حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، پاک فوج، دیگر اداروں اور پولنگ سٹاف کا شکریہ ادا کرتا ہے۔