انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کے قوانین کا استعمال ، ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کر نے کے لئے فیٹیف بھارت پر دبائو ڈالے،ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ

169
انسانی حقوق کی تنظیموںاور کارکنوں کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کے قوانین کا استعمال ، ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کر نے کے لئے فیٹیف بھارت پر دبائو ڈالے،ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ

اسلام آباد۔4نومبر (اے پی پی):ایمنسٹی انٹرنیشنل، چیریٹی اینڈ سکیورٹی نیٹ ورک اور ہیومن رائٹس واچ نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(فیٹیف ) پر زور دیا ہے کہ وہ ہندوستانی حکومت پر دبائو ڈالے کہ بھارت انسانی حقوق کے محافظوں، کارکنوں کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے قوانین کا اطلاق بند کرائے اور غیر منافع بخش تنظیموں کے کارکنوں کے خلاف قانونی کارروائیوں، ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کرے۔

عالمی انسانی حقوق کے نگراں ادارے(ایمنسٹی انٹرنیشنل) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ فیٹیف کے ارکان غیر قانونی فنڈنگ سے نمٹنے کے لیے ہندوستان کے ریکارڈ کا چوتھا متواتر جائزہ 6 نومبر کو شروع کرنے جا رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام شہری جگہ کو محدود کرنے اور اظہار رائے، انجمن اور پر امن اجتماع کے حقوق کی آزادیوں کو سلب کرنے کے لیے ایک منظم مہم کے حصے کے طور پر فیٹیف کی سفارشات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔ ہندوستانی حکومت نے خاص طور پر سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ آبادیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے انسانی حقوق کے گروپوں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا ہے۔

اس مقصد کے لیے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ ( ایف سی آر اے) ، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ایکٹ ( پی ایم ایل اے) کی آڑ میں بھارتی سرکار نے کالے قوانین متعارف کرا رکھے ہیں ۔ ان کے اقدامات فیٹیف کے معیارات اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون دونوں کی خلاف ورزی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے چیئر آف بورڈ آکر پٹیل نے کہا، "ہندوستانی حکام نے ملک میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں، کارکنوں اور غیر منافع بخش تنظیموں کی انسانی حقوق کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کالے قوانین کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی سرکار فیٹیف کے معیارات کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے ناقدین کو نشانہ بنانے، ڈرانے، ہراساں کرنے اور خاموش کرنے کے لیے جعلی غیر ملکی فنڈنگ اور دہشت گردی کے الزامات لگا رہے ہیں۔ ہندوستانی حکومت نے2002 کا پریونشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ ( پی ایم ایل اے) بھی نافذ کر رکھا ہے تاکہ فیٹیف کی طرف سے مقرر کردہ رکنیت کی شرائط کو پورا کیا جا سکے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں بھارتی حکام نے قانون کو بطور ہتھیار انسانی حقوق کے محافظوں، کارکنوں اور غیر منافع بخش تنظیموں کے خلاف استعمال کیا ہے اور اس کی آڑ مین ان پر حملے کئے گئے، انہیں ڈرایا، دھمکایا اور ہراساں کیا گیا ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا ستمبر 2020 میں اپنے بینک اکانٹس کو منجمد کرنے کے ذریعے پی ایم ایل اے کے تحت کارروائی کا سامنا کر رہی ہے، اس کے کام کو پچھلے تین سالوں سے روک دیا گیا ہے،

ہیومن رائٹس واچ میں ایشیا کی ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ بھارت نے تین قوانین ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر نافذ کر رکھے ہیں جس کے نتیجے میں سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں ۔ انہوں نے فیٹیف پر زور دیا کہ اسے ہندوستانی حکومت کو اپنے سیاسی مقاصد ، تنظیم کی سفارشات کا استحصال کرنے ، تمام قسم کے اختلاف رائے کو خاموش کرانے کے لئے قانون کو بطور ہتھیار استعمال کی اجازت نہیں دینی چاہئے ۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مزید کہا کہ 2014 جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں آئی ہے، نے ناقدین کو خاموش کرنے اور ان کی کارروائیوں کو بند کرنے کے لیے ملکی قانون کی حد سے زیادہ دفعات کا استعمال کیا ہے، جس میں ان کے غیر ملکی فنڈنگ کے لائسنس منسوخ کرنے اور انسداد دہشت گردی کے قانون کا استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات بنا رہی ہے۔

فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ، جو پہلی بار 1976 میں نافذ کیا گیا تھا، اس کا مقصد ہندوستانی سیاست میں غیر ملکی مداخلت کو روکنا اور ان کو منظم کرنا تھا۔ تاہم، 2010 میں، حکومت نے سیاسی جماعتوں کے لیے غیر ملکی فنڈنگ کی نگرانی میں نرمی کرتے ہوئے، غیر منافع بخش تنظیموں پر زیادہ پابندیاں لگانے کے لئے قانون مین تبدیلیاں کر دی ہیں ۔ پچھلے 10 سالوں میں، حکام نے اس قانون کو 20,600 سے زیادہ غیر منافع بخش تنظیموں کے لائسنس منسوخ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، جن میں 2022 میں 6,000 تنظیموں کو روکنے کے اقدامت بھی شامل ہیں جس سے ان کی غیر ملکی فنڈنگ تک رسائی کو روک دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام نے انسانی حقوق کے محافظوں اور کارکنوں کو گرفتار کرنے اور حراست میں لینے کے لیے اکثر غیر قانونی سرگرمیاں کی ہیں اوریو اے پی اے ایکٹ کو استعمال کیا ہے جو بھارت میں انسداد دہشت گردیکے لئے استعمال کیا جاتاہے۔ یہ قانون 2004 میں دہشت گردی کی روک تھام کے سخت قانون میں اصلاحات کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا، لیکن حکومت نے 2008، 2012 اور 2019 میں اس میں ترمیم کرکے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی بہت سی مشکل شقوں کو شامل کیا۔

غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ کی انسداد دہشت گردی کی مالی اعانت کی دفعات کا متعدد طلبا کارکنوں کے خلاف غلط استعمال کیا گیا ہے جنہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی مالی امداد اور دیگر دفعات کا غلط استعمال کیا گیا ایک ممتاز کشمیری انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز، جو جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے پروگرام کوآرڈینیٹر ہیں، اور اتحاد سے وابستہ ایک صحافی عرفان مہراج، کو حراست میں لیا گیا ہے۔

چارجز درج کرنے میں تاخیر اور ان مقدمات میں متعدد بری ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت انسداد دہشت گردی کے قانون کو ناقدین کو برسوں تک بند رکھنے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور عدالتی عمل کو ہی حکومتی ناقدین کو اذیت دینے اور سزا دینے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔