اسلام آباد۔23اگست (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں چائنا پاکستان اسٹڈی سینٹر (سی پی ایس سی) نے فریڈرک ایبرٹ اسٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے تعاون سے کتاب ‘چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور بیانڈ 2030: اے گرین الائنس فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ’ کی رونمائی کا اہتمام کیا جس کی تدوین ڈاکٹر رابعہ اختر نے کی۔ تقریب میں سینیٹر مشاہد حسین سید بطور مہمان خصوصی اور پاکستان میں چین کے سفارت خانے کے منسٹر کونسلر ڑو ہانگٹیان نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
چین میں پاکستان کی سابق سفیر نغمانہ ہاشمی، ایسوسی ایٹ پروفیسر قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر سلمیٰ ملک اور سابق سی ای او خیبر پختونخوا بورڈ آف انویسٹمنٹ ڈاکٹر حسن داو¿د بٹ نے بھی تقرینب سے خطاب کیا۔ ڈی جی آئی ایس ایس آئی سفیر سہیل محمود نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہمہ موسمی پاک چین سٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ اور چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کو اس کے مرکزی جزو کے طور پر اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک اور بی آر آئی کے فلیگ شپ منصوبے کے طور پر چین کے مغربی صوبوں کو پاکستان کے راستے بحیرہ عرب سے ملاتا ہے، یہ منصوبہ پاکستان کے لیے تبدیلی کا باعث ہے جو توانائی کی قلت اور بنیادی ڈھانچے کے خسارے جیسے اہم مسائل کو حل کرتا ہے اور علاقائی روابط کو بڑھاتا ہے۔ انہوں نے سی پیک منصوبوں کے 11 سال قبل شروع ہونے کے بعد سے حاصل ہونے والے ٹھوس نتائج پر بھی روشنی ڈالی۔ سفیر سہیل محمود نے کہا کہ یہ کتاب سی پیک کی پائیدار ترقی کی صلاحیت پر زور دیتی ہے۔
ایف ای ایس کے کنٹری ڈائریکٹر فیلکس کولبٹز نے ایڈیٹر اور مصنفین کا شکریہ ادا کیا اور انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد کی حمایت اور تعاون کو سراہا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ کتاب نئے خیالات کو جنم دے گی، مزید تحقیق کی حوصلہ افزائی کرے گی اور سی پیک کے فریم ورک کے تحت اور اس سے آگے پائیدار ترقی پر گفتگو میں بامعنی حصہ ڈالے گی۔ سفیر نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ کتاب بی آر آئی اور سی پیک کی حمایت میں ایک جوابی بیانیہ پیش کرتی ہے، کتاب نہ صرف چیلنجز پر بحث کرتی ہے بلکہ طویل مدتی حل بھی پیش کرتی ہے۔ ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے کہا کہ کتاب سی پیک کے سیاسی، جغرافیائی اور ماحولیاتی پہلوو¿ں پر روشنی ڈالتی ہے۔
ڈاکٹر حسن داو¿د بٹ نے اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ کس طرح سی پیک کے اہم پہلوو¿ں میں سے ایک ماحولیاتی طور پر پائیدار خصوصی اقتصادی زونز کی ترقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خصوصی اقتصادی زونز میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے صحیح پالیسیوں میں حصہ ڈالے۔ والیم کی ایڈیٹر ڈاکٹر رابعہ اختر نے کہا کہ اقتصادی اعدادوشمار سے ہٹ کر سی پیک کے تحت اپنے مستقبل کا از سر نو تصور کرنے اور اس بات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ ترقی کو پائیداری کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ کیا جائے۔
اپنے خطاب میں مہمان خصوصی سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ کس طرح چین نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں، جدت حاصل کی اور اب ”پرامن عروج“پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، چین میں فارچیون 500 کمپنیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے اور اس نے 800 ملین لوگوں کو غربت سے نکالنے میں مدد کی ہے جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے باوجود دوسرے پراجیکٹوںاور بھارت۔مشرق وسطی۔یورپ۔اکنامک کوریڈور میں نقل کیا گیا ہے۔
سینیٹر مشاہد حیسن سید نے بی آر آئی کے خلاف عالمی سطح پر سمیر مہم پر بھی روشنی ڈالی اور بی آر آئی اور اس سے متعلقہ منصوبے سی پی ای سی کے ارد گرد تعمیر کی جانے والی منفی کا مقابلہ کرنے کے لیے فعال کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین واحد ملک ہے جس نے دوسرے ممالک کو اپنی ترقی کے ساتھ ترقی کرنے میں مدد کی ہے۔ قبل ازیں ڈاکٹر طلعت شبیر نے کہا کہ یہ کتاب سی پیک کے 11 سال بعد ایک عکاسی اور روڈ میپ دونوں کے طور پر کام کرتی ہے۔
اپنے اختتامی کلمات میں سفیر خالد محمود نے کہا کہ سی پیک کوئی الگ تھلگ نہیں ہے، یہ وسیع تر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ ہے جو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا منصوبہ ہے، اس منصوبے کو درحقیقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں کئی ممالک کی مخالفت بھی شامل ہے۔ کتاب کی رونمائی میں سفارت کاروں، پریکٹیشنرز، ماہرین تعلیم، تھنک ٹینک کے ماہرین، طلباءاور کاروباری برادری کے ارکان اور میڈیا سمیت مختلف لوگوں نے شرکت کی۔