اسلام آباد۔6اکتوبر (اے پی پی):وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ”خطے میں امن اور سلامتی اور اس سے آگے: پاکستان کا کردار“ کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس جمعہ کو اختتام پذیر ہوگئی۔ کانفرنس کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز نے یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) کے تعاون سے کیا تھا۔ کانفرنس کے پہلے ورکنگ سیشن کا عنوان ”افغانستان میں پائیدار امن کی تعمیر“ تھا جس کی نظامت ڈائریکٹر سینٹر فار افغانستان مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ آمنہ خان نے کی۔
مقررین میں سابق سفیر منصور احمد خان، افغانستان کی سابق وزیر نرگس نہان، سفیر عمر صمد، کرائسز گروپ کے ایشیا کے سینئر کنسلٹنٹ گریم سمتھ اور یو ایس آئی پی کے سینئر ایکسپرٹ سائوتھ ایشیا پروگرامز اسفندیار میر شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا تنازعہ ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی جہت کا حامل ہے اور پائیدار امن کے لیے سیاسی راستے کے لیے اتفاق رائے کی ضرورت ہے
۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اور افغانستان نئے اور پرانے مسائل پر مذاکرات، دوطرفہ بات چیت اور تعاون کے ذریعے مزید کام کرسکتے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ افغانستان میں قیام امن کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے سنگم پر ہے۔ واشنگٹن اور اسلام آباد میں طالبان کی دہشت گرد گروہوں بالخصوص القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے ساتھ بڑھتی ہوئی صف بندی کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ دوسرے ورکنگ سیشن کی نظامت پروگرام ایڈوائزر فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) پاکستان ہمایوں خان نے کی۔
سیشن کے مقررین نے بدلتے ہوئے عالمی نظام کے درمیان اپنے کردار کو سنبھالنے میں پاکستان کی شمولیت کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان علاقائی نقطہ نظر اپنائے اور اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے علاقائی کثیر جہتی فورمز اور اداروں میں فعال طور پر حصہ لے۔ مقررین نے کہا کہ علاقائی طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کریں، دیرینہ مسائل کو حل کرنے اور تعاون کو فروغ دینے پر توجہ دیں۔
انہوں نے اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی چیلنجوں کو تسلیم کیا جن پر توجہ کی ضرورت ہے اور حکومتوں پر زور دیا کہ وہ قومی مفادات کو آگے بڑھاتے ہوئے امن کے حصول کے ساتھ اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کریں۔ تیسرے ورکنگ سیشن کے مقررین میں پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ڈاکٹر اسد مجید خان بھی شامل تھے۔ مقررین نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ چیلنجز پر بھی روشنی ڈالی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کس طرح علاقائی عدم استحکام اور پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام دو طرفہ تعلقات میں ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاک امریکہ تعلقات اگرچہ تنزلی کا شکار ہیں لیکن کسی بحران میں نہیں ہیں جو کہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تجارت اور سرمایہ کاری، موسمیاتی تبدیلی، صاف توانائی، تعلیمی تبادلے اور عوامی سطح پر روابط جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔