انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں شنہوا نیوز ایجنسی کے تعاون سے ہانگ ٹنگ فورم ڈائیلاگ کا انعقاد

124

اسلام آباد۔18اکتوبر (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں چائنا پاکستان سٹڈی سینٹر نے جمعہ کو یہاں شنہوا نیوز ایجنسی کے تعاون سے ہانگ ٹنگ فورم ڈائیلاگ کا انعقاد کیا ،جس کا عنوان ”چائنہ پاکستان آل ویدر سٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ اینڈر انڈرسٹینڈنگ چائینیز ماڈرانائیزیشن ڈویلپمنٹ پاتھ“ تھا۔ تقریب میں چین کی منفرد قومی جدیدیت اور چین پاکستان کی سٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ شرکاء میں سفارتی برادری، تھنک ٹینکس اور سماجی خدمات کے شعبہ کے نامور افراد نے شرکت کی۔

اپنے خیرمقدمی کلمات میں شنہوا نیوز ایجنسی کے بیورو چیف جیانگ چاو نے کہا کہ دونوں ممالک کے رہنمائوں کی رہنمائی میں پاک چین دوستی وقت کی کسوٹی پر ثابت قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں سی پی سی سنٹرل کمیٹی کے تحت جامع اصلاحات اور چینی طرز کی جدید کاری کو فروغ دینے سے ایک نیا سنگ میل عبور ہوا ہے۔ اس سے چین پاکستان آل ویدر سٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ کو مضبوط بنانے میں بھی سہولت ہوئی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان مدثر اقبال نے چین کے عوام کو جدید بنانے کے لئے عوامی نقطہ نظر کی تعریف کی جس کے نتیجے میں ترقی کے ثمرات لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی جدیدیت اور ترقی کے لئے اسی راستے پر چلنے کی خواہش رکھتا ہے، چین کی پائیدار اور ماحولیاتی ترقی بھی ایک رہنمائی ہے جو پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک نمونہ کے طور پر کام کرسکتی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے کہا کہ چینی جدیدیت کی جڑیں ڈینگ ژیائوپنگ کے بنیادی اصولوں میں پیوست ہیں جن میں چینی قوم کی تجدید، چین کی عالمی پوزیشن کو مضبوط کرنا اور کمیونسٹ پارٹی کی اپنی ترقی کی ایک نئی قسم کا تصور کرنا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی اصول فطرت اور انسانیت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں جس کی عکاسی سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو منصوبوں میں ہوتی ہے۔ بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر حسن دائود بٹ نے کہا کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں بیلٹ کا حصہ ہے، سی پیک اب بھی تمام بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو راہداریوں میں سب سے زیادہ جامع، اہم اور ترقی پسند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک بھی ترقی اور جدیدیت کے چینی ماڈل پر عمل کرتے ہوئے درمیانی اور اعلیٰ آمدنی کی سطح تک چینی راستے پر چل سکتے ہیں۔

سینئر اینکر پرسن فرخ پتافی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کے میڈیا کے ذریعے پاک چین تعلقات کی کہانی کو دوبارہ بیان کیا جائے، سی پیک کی ایک جامع میڈیا حکمت عملی اس کے مقصد میں شامل ہونی چاہیے تاکہ چینی لوگوں کو پاکستان اور پاکستانی عوام چین کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ سی پی ای سی اور بی آر آئی کے خلاف کسی بھی منفی پروپیگنڈے کو بھی رد کرنا چاہیے۔ پاکستان میں چین کے سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن شی یوآن کیانگ نے کہا کہ مسلسل اصلاحات اور کھلے پن چین کی ترقی کی راہ میں ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم لی کیانگ کا حالیہ دورہ پاکستان چین پاکستان آل ویدر اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ کو مضبوط بنانے میں ایک اور اہم قدم ہے، دونوں ممالک کی قیادت سی پیک اور عوام سے عوام کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے علاوہ تین اقدامات یعنی گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کی حمایت اور فروغ پر متفق ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

چین میں پاکستان کے سابق سفیرمسعود خالد نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ چین کی ترقی کا سفر 2005 میں 2.286 ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر آج 18 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین پاکستان تعلقات ایک خصوصی اعلیٰ ترجیحی رشتہ ہے اور اسے سبوتاژ کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکامی سے دوچار ہوگی، پاکستان جدیدیت کے لیے چینی نقطہ نظر سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو ترقی کے لیے سیکھنے کے مواقع کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ایک مکمل حکومتی نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے۔ اس سے قبل اپنے تعارفی کلمات میں ڈاکٹر طلعت شبیر نے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات کی تاریخ مشترک ہے جو دونوں ممالک کی سیاسی، اقتصادی، تزویراتی اور ثقافتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ایک جامع، کثیر جہتی شراکت داری میں پروان چڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر شی جن پنگ کی چینی طرز کی جدید کاری پاکستان کے لیے انمول اسباق پیش کرتی ہے کیونکہ ہم پائیدار ترقی کے لیے اپنا راستہ خود ترتیب دیتے ہیں۔ چیئرمین آئی ایس ایس آئی خالد محمود نے کہا کہ چین کی ترقی مسلسل جدوجہد اور اصلاحات کا راستہ ہے، بنی نوع انسان کے لیے مشترکہ مستقبل کے ساتھ کمیونٹی کے چین کے وژن کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا عالمی نظریہ مسلط کیا جائے بلکہ یہ نسخہ ہے کہ ممالک کو اپنی ضروریات کے مطابق ترقی کا راستہ کیسے اپنانا چاہئے