او آئی سی ممالک میں تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے تجارتی سہولت کاری بہت اہمیت کی حامل ہے، افتخار علی ملک

106
صدر افتخار علی ملک
سارک ممبر ممالک خصوصاً افغانستان کے ساتھ تجارت کو بڑھانے کے لیے علاقائی اقتصادی تعاون انتہائی ضروری ہے، صدر افتخار علی ملک

اسلام آباد۔20مارچ (اے پی پی):پاکستانی تاجر برادری نے کہا ہے کہ انٹرا او آئی سی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے تجارتی سہولت کاری بہت اہمیت کی حامل ہے ،او آئی سی کے رکن ممالک کے درمیان تجارت کو مزید فروغ دیا جائے تاکہ ان کی معیشتوں پر وبائی مرض کورونا کے اثرات کے بڑھتے ہوئے خطرے کو دور کیا جا سکے۔

اتوار کو سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر افتخار علی ملک نے لاہور چیمبر کے سابق سینئر نائب صدر مہر کاشف یونس کی طرف سے منعقدہ او آئی سی کے تجارتی امکانات کے موضوع پر گول میز کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے جو4براعظموں پر محیط ہے اور جس کے رکن ممالک کی تعداد 57 ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوویڈ 19 کے دوران عالمی معیشت شدید دباو کا شکار رہی جس نے متعدد اہم شعبوں کو متاثر کیا۔انہوں نے کہا کہ او آئی سی ممالک قدرتی وسائل اور معدنیات کے بڑے ذخائر سے مالامال ہیں لیکن عالمی معیشت اور یہاں تک کہ رکن ممالک کے مابین تجارت میں ان کا حصہ اس صلاحیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ انٹرا او آئی سی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے تجارتی سہولت کاری بہت اہمیت کی حامل ہے زیادہ تر ٹیرف رکاوٹوں کا تعلق سینیٹری اور فائٹو سینیٹری اقدامات سے ہے ۔ نان ٹیرف رکاوٹوں، خاص طور پر تکنیکی اقدامات اور طریقہ کار سے متعلق اقدامات سے رکن ممالک میں 50 فیصد سے زیادہ کمپنیاں متاثر ہوتی ہیں۔

کانفرنس کے میزبان مہر کاشف یونس نے بتایا کہ نان ٹیرف رکاوٹوں کو بتدریج کم کرنے کے لیے رکن ممالک اور او آئی سی کے اداروں کو تجارتی سہولت کاری پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے رکن ممالک نے تجارت اور سرمایہ کاری کے بہاؤ کو بہتر طریقے سے منظم کرنے اور مقامی ترغیبات کے ساتھ بین الاقوامی تجارتی لین دین کو مزید آزاد بنانے کے لیے علاقائی اور کثیر الجہتی تجارتی و سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔

مہر کاشف یونس نے کہا کہ ریاستیں تجارتی شراکت داروں کے مقابلے میں کمپنیوں پر زیادہ پابندیوں کا اطلاق کرتی ہیں رکن ممالک کی طرف سے لاگو کیے جانے والے سب سے اہم اقدامات میں درآمدی محصولات، مالیاتی سبسڈی، برآمدی سبسڈی، برآمدی محصولات، نان ٹیرف درآمدی اقدامات درآمدی لائسنسنگ، حفاظتی اقدامات، اینٹی ڈمپنگ اقدامات، نان ٹیرف برآمدی اقدامات ، درآمدی کوٹہ، مقامی مواد، ایف ڈی آئی کے لیے مالی مراعات، برآمدی لائسنسنگ، اندرونی درآمدی ٹیکس درآمدی پابندی اور برآمدی کوٹہ شامل ہیں۔

لاہور چیمبر کے ممبر ایگزیکٹو کمیٹی شاہد نذیر نے کہا کہ ان رکاوٹوں کے باوجود رکن ممالک نے غیر ملکی تجارتی لین دین کے طریقہ کار کو بہتر بنانےکے لیے تجارتی سہولت کاری کے اقدامات بھی شروع کیے ہیں جن میں سنگلز ونڈوز کا قیام ، سڑک، ریل اور ایئر پورٹس کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، کسٹم ایڈمنسٹریشن کی آٹومیشن، الیکٹرانک ڈیٹا کا تبادلہ، انٹر ایجنسی اسٹیک ہولڈرز برائے تجارت کا تبادلہ اور متعدد غیر ملکی تجارتی دستاویزات کا خاتمہ شامل ہے۔

اس موقع پر بین الاقوامی شہرت یافتہ ایس ایم ای ماہر رحمت اللہ جاوید، سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز پنجاب یونیورسٹی کے ریسرچ سکالرز محمد عمر ابراہیم، محترمہ ہمنا راٹھور اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔