او آئی سی کو مسلم امہ کو درپیش عصری چیلنجز اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا او آئی سی وزراء خارجہ کونسل کے افتتاحی سیشن سے خطاب

90

اسلام آباد۔22مارچ (اے پی پی):وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ او آئی سی کو مسلم امہ کو درپیش عصری چیلنجوں اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے، داعش، ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ، ٹی ٹی پی اور القاعدہ جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کیلئے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے، افغانستان میں انسانی المیہ پر قابو پانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں نفرت پر مبنی نظریات، تشدد، امتیازی سلوک، دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ آواز اٹھانا ہوگی، امت مسلمہ کے اندر یکجہتی اور تعاون کو فروغ دینا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون ہے، یوکرین بحران نے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے، ہمیں دنیا میں اتحاد، انصاف اور ترقی کیلئے قابل اعتماد شراکت دار ہونا چاہئے۔ وہ منگل کو اسلام آباد میں او آئی سی وزراء خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کی صدارت سنبھالنے کے بعد افتتاحی سیشن سے خطاب کر رہے تھے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں نفرت پر مبنی نظریات، تشدد، امتیازی سلوک، دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ آواز اٹھانا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کے اندر یکجہتی اور تعاون کو فروغ دینا پاکستانی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون ہے، یوکرین بحران نے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے، ہمیں دنیا میں اتحاد، انصاف اور ترقی کیلئے ایک قابل اعتماد شراکت دار ہونا چاہئے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت دنیا کے تمام تنازعات میں سے 60 فیصد سے زیادہ صرف مسلم ممالک میں موجود ہیں، یمن، شام سے صومالیہ تک مختلف مقامات تنازعات کا شکار ہیں، دنیا میں دو تہائی مہاجرین شام، میانمار، صومالیہ، افغانستان سے آ رہے ہیں، ہمیں اندرونی فشار اور چیلنجز پر قابو پانا ہوگا، امت مسلمہ کیلئے یہ وقت ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر موجود شورشوں پر قابو پانے کیلئے اجتماعی ردعمل کا مظاہرہ کرے، ہمیں پوری دنیا میں اتحاد، انصاف اور ترقی کیلئے ایک قابل اعتماد شراکت دار ہونا چاہئے لیکن جارحیت یا تسلط میں کسی کا بھی ساتھ نہیں دینا چاہئے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی کے قیام کے 50 سال بعد بھی ہم دنیا کے کئی حصوں میں مسلمانوں کیلئے انصاف دیکھنے کے منتظر ہیں، فلسطین، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان آج بھی محکوم ہیں اور انہیں حق خودارادیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمان پچھلی سات دہائیوں سے اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت میں بی جے پی۔آر ایس ایس گٹھ جوڑ پر مشتمل حکومت نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ وادی میں نو لاکھ قابض فوج کے ذریعے دہشت گردی کا بازار گرام کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں، بھارت کا مسلمانوں کے خلاف تشدد صرف کشمیر تک محدود نہیں، فلسطین کے مسئلہ کا حل 1967 سے قبل کی سرحدات پر مبنی ایسی ریاست ہے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، فلسطین اور کشمیر میں آباد ی کے تناسب میں تبدیلی کیلئے غیرقانونی اقدامات جاری ہیں، توقع ہے او آئی سی مسلم ممالک میں تنازعات کے خاتمہ کیلئے اپنا کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کووڈ 19، ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے تین عالمی بحرانوں کو موثر طریقے سے حل کرتے ہوئے ترقی کیلئے شراکت داری پر بھی زور دیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں مسلم دنیا میں بیرونی مداخلت کو روکنے کیلئے کام کرنا چاہئے کیونکہ ہم تنہا ہی اندرونی خلفشار اور چیلنجز کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی ممالک کو غیرقانونی مالیاتی ترسیل کو روکنے کیلئے ایک جامع قانونی ڈھانچہ بھی تیار کرنا چاہئے، پسماندگی، غربت اور بدعنوانی ہمارے معاشروں کے مستقبل کی سلامتی اور استحکام کیلئے سنگین خطرات ہیں، او آئی سی کے رکن ممالک کے درمیان ترقیاتی شراکت داری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے رکن ممالک بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہیں جنہیں تجارت، مشترکہ تحقیق و ترقی کے منصوبوں، تربیت اور سرمایہ کاری کے ذریعے موثر طریقے سے استعمال کیا جانا چاہئے، مسلم دنیا میں تحقیق اور تکنیکی انوویشن کو فروغ دینے کیلئے ہمیں مسلم سائنسی اور فکری پہلو کو ہم آہنگ کرنے کیلئے کومسٹیک کے پلیٹ فارم کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں او آئی سی کے رکن ممالک کے درمیان ترجیحی تجارتی نظام سے بھی استفادہ کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں او آئی سی کی طرف سے فریم ورک معاہدے کی تیزی سے توثیق کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں بھی اکٹھے ہو کر ترقی کی راہ میں حائل بین الاقوامی رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے ہم آہنگی پیدا کرنی چاہئے، عالمی اقتصادی ڈھانچہ میں اصلاحات کی ضرورت پر ہماری مشترکہ بنیاد ان آوازوں کو مضبوط کرے گی جو اسے مساوی بنانے کیلئے ناگزیر ہیں۔

افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنا اور افغان معیشت کے زوال کو روکنا ہماری اولین ترجیحات ہونی چاہئے، پرامن اور خوشحال افغانستان ہم سب کے بہترین مفاد میں ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ داعش، ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ، ٹی ٹی پی اور القاعدہ جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کیلئے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے، ان دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے کیلئے ہمیں افغان حکام کی کوششوں کی حوصلہ افزائی اور حمایت کرنی چاہئے۔

اسلاموفوبیا کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم مل کر اسلامو فوبیا پر کامیابی سے مشترکہ طور پر پیش رفت کر سکتے ہیں، ہم دنیا کے ایک چوتھائی نوجواں آبادی رکھتے ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے 2022 کو نوجواں میں سرمایہ کاری کا سال قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس سے ہم ایسے طریقہ کار متعارف کروا سکتے ہیں جو کہ امن و استحکام اور تنازعات کے خاتمہ میں مددگار ہوں، ہم یو این جنرل اسمبلی کی جانب سے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے عالمی دن قرار دینے کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ او آئی سی کے صدر انصاف کے حصول کیلئے شراکت داری پر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کریں گے۔