اسلام آباد۔12اکتوبر (اے پی پی): انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں انڈیا سٹڈی سنٹر نے جموں و کشمیر کے لئے او آئی سی سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے؍ سیاسی امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل یوسف الدوبے کے ساتھ ایک گول میز مباحثے کی میزبانی کی۔
ڈائریکٹر آئی ایس سی ڈاکٹر خرم عباس نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے تنازعہ جموں و کشمیر پر پاکستان کے موقف کی او آئی سی کی مسلسل حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی نے جموں و کشمیر کے عوام کے لیے ہمیشہ مضبوط آواز اٹھائی ہے۔ دیگر شرکا میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق کنوینر غلام محمد صفی، سابق وزیر آزاد کشمیر فرزانہ یعقوب، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیئرمین الطاف حسین وانی، سابق سفیر اور اکیڈمکس آئی پی ایس کے وائس چیئرمین سید ابرار حسین،
لیگل فورم فار کشمیر کے چیئرمین ایڈووکیٹ ناصر قادری، شیخ عبدالمتین، ماہرین تعلیم اور یونیورسٹی کے طلبا شامل تھے۔ سابق سیکرٹری خارجہ اور ڈی جی آئی ایس ایس آئی سہیل محمود نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان او آئی سی کے بانی رکن کی حیثیت سے کس طرح اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایمبیسیڈر سہیل محمود نے کر کہا کہ فلسطین اور کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے کے دو قدیم ترین تنازعات ہیں، د
ونوں تنازعات خود ارادیت کے ناقابل تنسیخ حق سے متعلق ہیں، اور دونوں قابض طاقتوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے حل طلب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کی مسلسل اور واضح حمایت کی ہے۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ دنیا بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے ایک مذموم ڈیزائن کے نفاذ کو دیکھ رہی ہے جو بین الاقوامی قانون اور چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے وفد پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر پر او آئی سی کے ایکشن پلان پر عمل درآمد کرے جو اسلام آباد میں مارچ 2022 میں وزرائے خارجہ کی 48 ویں کونسل کے دوران منظور کیا گیا تھا اور جموں و کشمیر کے تنازعہ پر او آئی سی کی قراردادوں کو وقت کے ساتھ ساتھ منظور کیا گیا تھا۔ خصوصی نمائندے یوسف الدوبے نے اس بات پر زور دیا کہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا تعلق ہے۔ انہوں نے کشمیر کاز کے لیے او آئی سی کی مستقل حمایت کا اعادہ کیا اور کہا کہ او آئی سی نے کبھی بھی بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط علاقے میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کی حمایت نہیں کی۔
انہوں نے او آئی سی کے اس مطالبے کو دہرایا کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مسلم دنیا میں ایک سرکردہ ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس نے اسلامو فوبیا کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شرکا نے جموں و کشمیر تنازعہ کے تاریخی، قانونی، انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی اور امن و سلامتی کے پہلوئوں سمیت وسیع پہلوئوں پر اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا۔
انہوں نے بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں خاص طور پر غیر قانونی حراستوں کے اثرات کی تفصیلات بیان کیں۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ او آئی سی کو عالمی برادری پر مقبوضہ کشمیریوں کی تکالیف کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے، شرکانے سیاسی، سفارتی اور قانونی دائروں میں کشمیر کاز کو آگے بڑھانے کے لیے سفارشات پیش کیں۔ شرکا نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کو فعال طریقے سے پیروی کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ چیئرمین آئی ایس ایس آئی ایمبیسیڈر خالد محمود نے جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے او آئی سی کی تاریخی اور ثابت قدم حمایت کو سراہتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔