اٹارنی جنرل نے اعتراضات پر مشتمل درخواست عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ میں دائر کر دی ،امید ہے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے ، عطا تارڑ

138

اسلام آباد۔3اپریل (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و قانونی امور عطا تارڑ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے اعتراضات پر مشتمل درخواست عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ میں دائر کر دی ہے ، وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ 7 رکنی بنچ نے پٹیشن خارج کر دی ہے جس کے بعد عمل درآمد پٹیشن کی گنجائش ہی نہیں بنتی۔ نو رکنی بنچ کو چھوڑ کر چھ ججز پر مشتمل نیا بنچ بنا کر ان قانونی اور آئینی نکات کو دیکھا جائے۔امید ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے ۔

وہ پیر کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے ۔ معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا کہ آج جب سپریم کورٹ میں کارروائی کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے روبرو اعتراضات سے بھری درخواست جمع کرائی ۔انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے جو اعتراضات اٹھائےہیں وہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں ۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پہلے سات رکنی بینچ نے الیکشن کرانےکے حوالے سے فیصلہ کیا ہے وہ فیصلہ چار ،تین کے تناسب سے آچکا ہے ، چار ججوں نے اس پٹیشن کو مسترد کیا ۔ دائرہ اختیار کے مطابق سپریم کورٹ یہ کیس نہیں سن سکتی ، یہ کیس واپس ہائیکور ٹ بھجوانا تھا ۔

سپر یم کورٹ اس کیس میں ازخود نوٹس نہیں لے سکتی اس کے بعد عمل درآمد پٹیشن کی گنجائش ہی نہیں بنتی ۔ عطا تارڑ نے کہا کہ اس کیس میں سات سے پہلے 9 رکنی بنچ تھا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے رضا کارانہ طور پر کیس سننے سے معذرت کر دی تھی ،اب بھی انھیں کیس کا حصہ بننے سے معذرت کر دینی چاہیے ، نو رکنی بنچ اپنی رائے دے چکا ہے اب باقی کے چھ ججز پر مشتمل نیا بنچ بنا کر ان قانونی اور آئینی نکات کو دیکھا جائے،انہوں نے کہا کہ 29 مارچ کے جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ بھی اعتراضات کی فہرست میں شامل ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کے فیصلے کی ایک انتظامی حکم نامے سے نفی کی گئی، یہ غلط روایت ڈالی گئی ہے ، اس کی قانون اور آئین کے اندر کوئی گنجائش نہیں ہے ،ملک کا جوڈیشل سسٹم ایسا ہونا شروع ہو گیا تو پورے ملک کا نظام انصاف متاثر ہو گا ،رجسٹرار کے سرکلر کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد اس معاملے پر مزید کارروائی آگے نہیں بڑھ سکتی ، اٹارنی جنرل نے وفاقی کی جانب سے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی بنچ سے علیحدگی اختیار کریں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک وقت الیکشن کے لئے آئینی تقاضا ہے کہ عبوری حکومتیں بنیں ، آرٹیکل 224 کے ہوتے ہوئے الگ الیکشن کی گنجائش نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کی اتھارٹی کو بھی اس درخواست میں چیلنج کیا ہے کہ صدر مملکت کے پاس الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے بلکہ یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان ایک سپریم ادارہ ہے ،

ازخودنوٹس ،بنچ کی تشکیل حوالے سے قانون سازی ہوچکی ہے ۔ عطا تارڑ نے کہا کہ پی ڈی ایم اجلاس کے بعد اعلامیہ میں کہا گیا کہ عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں ،اس کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ عدم اعتماد عدالت کے اندر بیٹھ کر ہوتا ہے ، یہ نہیں ہوتا کہ عدالت میں جائیں ہی نہ ۔ انہوں نے کہا کہ اب دیکھتے ہیں کہ تین رکنی بنچ ہماری درخواست پر کیا فیصلہ کرتا ہے، امید ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن میں جانا ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی شخص کی خواہش پر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں ۔