”اڑان پاکستان”ہماری حکمت عملی ،پاکستان کو2035 تک ایک کھرب ڈالر کی معیشت بنا نا ہدف ہے، پروفیسر احسن اقبال

8

لاہور۔30جون (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ”اڑان پاکستان”ہماری قومی اقتصادی تبدیلی کی حکمت عملی ہے،پاکستان کو 2035 تک ایک کھرب ڈالر کی معیشت بنا نا ہدف ہے،اب ایک ایسے سول سروس نظام کی ضرورت ہے جو ضوابط کے ساتھ مقصد پر بھی مرکوز ہو۔ان خیا لا ت کا اظہار انہوں پیر کے روز یہاں سکول آف پبلک پا لیسی میں 123 ویں نیشنل مینجمنٹ کورس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے کیا۔

وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ یہ سول سروس سسٹم طویل عرصے سے پاکستان کی سول سروس کی قیادت کو آزمانے،نکھارنے اور قومی خدمت کیلئے تیار کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے،آپ اس ملک کے بہترین افسران میں شامل ہیں اور آنے والے برسوں میں آپ کی خدمات ہمارے وطن کی ترقی کی سمت کو متعین کر نے میں اہم کردار اداکرے گی۔انہوں نے کہا کہ یہ کورس صرف ایک تعلیمی مشق نہیں بلکہ ایک قومی احتساب کا لمحہ بھی ہے،اب خود کو پاکستان کی تبدیلی کی فرنٹ لائن فورس کے طور پر دوبارہ تصور کرنا ہوگا،یہ کارکردگی کا تضاد ہے کہ ذہین افراد ایک ناکارہ نظام کو کیوں درست نہیں کر سکتے،یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کا ہمیں دیانتداری سے سامنا کرنا چا ہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انفرادی طور پر ہمارے سول سرونٹس ملک کے ذہین ترین افراد میں شامل ہیں لیکن اجتماعی طور پر سول سروس سسٹم وہ نتائج فراہم کرنے میں ناکام ہو رہا ہے جن کے ہمارے عوام مستحق ہیں،ہمارا تعلیمی نظام کیوں ناکام ہو رہا ہے؟صحت کی سہولیات ملک کے بڑے حصوں میں ناقابل رسائی یا غیر فعال کیوں ہیں؟بنیادی ڈھانچے کے منصوبے کیوں رک جاتے ہیں اور لازمی خدمات کیوں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں؟ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد کیوں ختم ہو رہا ہے؟یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے پاس ذہین افراد تو ہیں لیکن نظام وہ نتائج نہیں دے رہا جو درکار ہے، خرابی افراد میں نہیں بلکہ فرسودہ قواعد،خطرے سے بچنے کی ثقافت اور نتائج کیلئے جوابدہی کے فقدان میں ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں ایک ایسے سول سروس نظام کی ضرورت ہے جو ضوابط کے ساتھ مقصد پر بھی مرکوز ہو۔انہوں نے کہا کہ دنیا آج تیزی سے ٹیکنالوجی،جغرافیائی سیاست،آبادیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔چوتھا صنعتی انقلاب معیشتوں کے کام کرنے کے طریقے اور حکومتوں کی عوامی خدمات کی فراہمی کو تبدیل کر رہا ہے،ادھر پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں معیشت کو اتار چڑھائوکے چکر سے نکالنا ہے،گورننس کو دوبارہ معتبر بنانا ہے،ترقی کا ماڈل امداد پر انحصار سے نکال کر برآمدات اور پیداوار پر مبنی بنانا ہے،یہ سب کچھ پرانے طریقہ کار سے ممکن نہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں ایک21 ویں صدی کی ایسی سول سروس کی ضرورت ہے جوڈیٹا سے لیس،ٹیکنالوجی سے جڑی،پالیسی پر مبنی اور نتائج کیلئے جوابدہ ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ سٹار گورننس ماڈل سول سروس کیلئے ایک نیا ضابطہ ہے،ہم نے وفاقی اداروں میں اس گورننس ماڈل کو فروغ دیا ہے،وہ سٹار ماڈل ہے جس میں استحکام ہو،ایسے ادارے بنائیں جو پالیسی میں مستقل مزاجی کے ساتھ سیاسی عدم استحکام سے محفوظ ہوں،جس نظا م میںشفافیت ہو،ہر فیصلہ اور ہر روپے کا حساب سب کے سامنے ہو کیو نکہ شفافیت سے اعتماد پیدا ہوتا ہے،یہ سسٹم چست ہو جس میں بیوروکریسی کو فوری،لچکدار اور حالات کے مطابق ہونا چاہیے اور یہ نظام ذمہ داری پر مبنی ہو جس میں سول سرونٹس کو دیانتداری اور جوابدہی کے ساتھ عوامی وسائل کا محافظ ہونا چاہیے۔

وفا قی وزیر نے کہا کہ یہ صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک عملی خاکہ ہے کہ ہم منصوبہ بندی، فیصلہ سازی اور خدمات کی فراہمی کو کیسے بہتر بنائیں۔انہوں نے کہا کہ جب مجھے چین۔پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک)کی قیادت سونپی گئی،تو یہ ایک جراتمندانہ اور بھرپور منصوبہ تھا جس میں توانائی، انفراسٹرکچر، گوادر، صنعتی زونز سب کچھ محدود وقت میں مکمل کر نا تھا اور اس منصوبے کی ابتدائی کامیابی کی وجہ آپ لوگ تھے۔پرو فیسر احسن اقبا ل نے کہا کہ سول سرونٹس جنہوں نے مختلف وزارتوں،صوبوں اور اداروں میں مل کر بھرپور محنت کی،ہم نے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو متحرک کیا،توانائی اور انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبے مکمل کئے اور پاکستان کو ایک علاقائی حب کے طور پر پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک اس بات کی زندہ مثال ہے کہ جب سول سروس میں مشن، قیادت اور مقصد ہو، تو بڑے اہداف بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک کھرب ڈالر کا وژن”اڑان پاکستان”اور 5Es آج ہمارا ہدف ہے تا کہ پاکستان کو2035 تک ایک کھرب ڈالر کی معیشت بنایا جائے۔”اڑان پاکستان”ہماری قومی اقتصادی تبدیلی کی حکمت عملی ہے جو فائیو ایز پر مبنی ہے جس میں پہلی برآمدات،دوسری ای۔پاکستان،تیسری ماحولیاتی غذائی و آبی تحفظ،چھوتھا توانائی و بنیادی ڈھانچہ اور پانچواں برابری و با اختیاری شا مل ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ برآمدات دوست پالیسی بنائیں،ریگولیٹری بوجھ کم کریں،مقامی صنعتی کلسٹرز کو فروغ دیں، قوانین سے آگے بڑھ کر مسابقت کو ترجیح دیں،سرکاری خدمات کو ڈیجیٹائز کریں،فائل پر مبنی سسٹم کو ڈیجیٹل گورننس کی طرف منتقلی کریں،ماحولیاتی معیارات نافذ کریں،زراعت اور پانی کے انتظام میں ٹیکنالوجی لائیں،ماحولیاتی تباہی سے پائیداری ترقی کی طرف رہنمائی کریں اور نوجوانوں،خواتین اور پسماندہ علاقوں کو با اختیار بنائیں۔