اڑان پاکستان قومی پروگرام ہے جس کوہمیں مل کرکامیاب بناناہے،مربوط مواصلاتی روابط کے ذریعے پاکستان کوتجارت کامرکزبنایاجائے گا،وفاقی وزیر احسن اقبال

134
Ahsan Iqbal

اسلام آباد۔31دسمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر منصوبہ بندی ،ترقی ،اصلاحات و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ اڑان پاکستان قومی پروگرام ہے جس کوہمیں مل کرکامیاب بناناہے،مربوط مواصلاتی روابط کے ذریعے پاکستان کوتجارت کامرکزبنایاجائے گا،ہوم گرون قومی اقتصادی پلان کے تحت صحت کے شعبے پرخصوصی توجہ دی جائیگی،کھیل کے شعبے کافروغ وزیراعظم کی اولین ترجیحات میں ہے،پانچ سالہ پروگرام پرہونیوالی پیشرفت سے وزیراعظم آفس کوسہ ماہی بنیادوں پرآگاہ کیاجائے گا،سی پیک کادوسرامرحلہ حکومت کے 5ایزفریم ورک سے ہم آہنگ ہے،نجی شعبے سے مل کر5ایزفریم ورک کوحقیقت میں بدلیں گے،ایک سال بعدماہرین کی آراکی روشنی میں آئندہ سال وژن2047 پیش کریں گے ۔وہ منگل کو قومی اقتصادی منصوبہ (2024-2029)”اڑان پاکستان پروگرام” کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کےدلیرانہ اقدامات کی بدولت آج معیشت مستحکم ہورہی ہے،پاکستان کے عوام باہمت اورباصلاحیت ہیں،جہا ں ایک طرف چیلنجزہیں وہاں ہمیں بے پناہ مواقع بھی میسرہیں،ہم نے مواقع سے استفادہ کرکے ملک کوترقی وخوشحالی کی منزل سے ہمکنارکرناہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سماجی شعبے کی ترقی پرخصوصی توجہ دیناہوگی،آبادی اوروسائل میں عدم توازن ہے ہمیں اس کوبہتربناناہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی معیشت پربڑابوجھ ہے، ہمیں قرض کے چنگل سے نجات حاصل کرناہوگی۔ انہوں نے کہا کہ
انسانی وسائل کی ترقی ہماری ترجیح ہونی چاہئے،پائیدارترقی کیلئے ہمیں تعلیم کے شعبے پرتوجہ مرکوزکرناہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے 90 کی دہائی میں اقتصادی پلان متعارف کرایا جس کوبعدمیں بھارت میں منموہن سنگھ کی حکومت نے اپنایا،سیاسی عدم استحکام اورپالیسیوں کاعدم تسلسل معاشی ترقی کومتاثرکرتاہے ۔امن و ہم آہنگی ،پالیسیوں کاتسلسل،سیاسی استحکام اوراصلاحات کامیابی کی ضمانت ہیں،قوموں کی تقدیراس کے فیصلوں میں پنہاں ہے،پاکستان کو دنیاکی بڑی معیشت بناناہماری ترجیح ہے۔ قبل ازیں شرکاء کو منصوبے کے بارے میں پریزینٹیشن دیتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے بتایا کہ سی پیک فریم ورک کو حقیقت میں بدلنے کے لئے سی آئی ایف سی اور ے فائیو ایز کو دو اہم مواقع ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ایف آئی ایف سی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، آذربائیجان اور کویت جیسے دوست ممالک کی طرف سے 29 ارب ڈالر کی متوقع سرمایہ کاری کا ذکر کیا۔ انہوں نے سی پیک کے دوسرے مرحلے میں پانچ راہداریوں (نمو راہداری ، روزگار بڑھانے والی راہداری ، جدت راہداری ، گرین راہداری ، او راہداریوں کا آغاز ) کو دوسری بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا ۔انہوں نے پاکستان کی معیشت کو ایک نازک موڑ پر قرار دیتے ہوئے متعدد گہرے مسائل کا ذکر کیا، جن میں سست اقتصادی ترقی، ناقص برآمدی کارکردگی، سیاسی عدم استحکام، پالیسی کا عدم تسلسل، مالی اور جاری کھاتوں کے خسارے، سماجی و اقتصادی تفاوت، ضرورت سے زیادہ قواعد و ضوابط، آبادی کا دباؤ، ماحولیاتی تبدیلی کی حساسیت، توانائی کی عدم کارکردگی ، مہنگائی، اور بڑھتی ہوئی سماجی تفاوت شامل ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ وفاقی حکومت کے وسائل زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو رہے ہیں، خود کفالت کے لئے موجودہ وسائل، ٹیکس ریونیو اور برآمدات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر نے انسانی وسائل کی ترقی پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں اقتصادی اشاریوں، انسانی وسائل کی ترقی اور ڈیجیٹل تبدیلی کے میدان میں بہت پیچھے ہے۔انہوں نے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جو فائیو ایز فریم ورک پر مبنی ہو تاکہ ملک کو 2035 تک ایک کھرب ڈالر اور 2047 تک تین کھرب ڈالر کی معیشت میں تبدیل کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات کو بڑھانے کے لئے پاکستان کی برآمدات کو اگلے آٹھ سالوں میں 30 ارب ڈالر سے بڑھا کر 100 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی، مینوفیکچرنگ، زراعت، معدنیات، افرادی قوت اوربلیو اکانومی جیسے شعبوں کو ترجیح دی جائے گی۔ای پاکستان کے تحت معیشت کو ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے گا جس میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی، اسٹارٹ اپ اور وی سی فنڈنگ ماڈلز، مہارت سازی، مصنوعی ذہانت کے فریم ورک کی تشکیل، اور سائبر سیکیورٹی کی بہتری شامل ہے۔ماحولیاتی تحفظ کے تحت پانی اور خوراک کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا، گرین ریولوشن 2.0 متعارف کرایا جائے گا، اور موسمیاتی تبدیلی کے مطابق اقدامات کئے جائیں گے۔توانائی اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے، گرین انرجی سولوشنز، مؤثر توانائی کی ترقی، علاقائی رابطے، معدنیات کے وسائل کو بروئے کار لانا، اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کے ذریعے منصوبوں کی مالی معاونت کو فروغ دیا جائے گا۔انہوں نے "چیمپئنز آف ریفارمز” پروگرام کے آغاز کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ پروگرام قابل پاکستانی شہریوں کو اپنی مہارتوں کے ذریعے حصہ لینے کی ترغیب دے گا۔ انہوں نے "پاکستان سسٹین ایبل لیب” کے قیام کا اعلان کیا جو ایک سال کے اندر ‘ویژن 2047’ کے روڈ میپ کے تحت تیار کی جائے گی ۔