اگر اپوزیشن اوپن بیلٹ پر آمادہ ہو جاتی تو یوسف رضاگیلانی کو خفت نہ اٹھانی پڑتی،پی ڈی ایم کا اتحاد غیرفطری اور عارضی ہے،وزیراعظم عمران خان کے خوف اور ذاتی مفادات نے انہیں یکجا کر رکھا ہے،وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی

82
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی بھارتی ریاست کرناٹک میں پیش آنے والے واقعہ کی شدید مذمت

اسلام آباد۔14مارچ (اے پی پی):وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف حکومت نے اپوزیشن کو سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹ کے معاملے پر دعوت دی تھی، اپوزیشن اگر اوپن بیلٹ پر آمادہ ہو جاتی تو یوسف رضاگیلانی کو سینیٹ چیئرمین انتخابات میں خفت نہ اٹھانی پڑتی، پی ڈی ایم نے ان کے ساتھ ہاتھ کیا ہے اب وہ اپنی صفوں میں تلاش کریں کہ انہیں دھوکہ کس نے دیا، پی ڈی ایم کا اتحاد غیرفطری اور عارضی ہے، یہ لوگ صرف وزیراعظم عمران خان کے خوف اور ذاتی مفادات کیلئے یکجا ہیں، سابقہ حکومتوں نے لوٹ کھسوٹ کر کے ملک کا بیڑہ غرق کیا، عوام نے ان سے مایوسی کے نتیجے میں تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا، وزیراعظم عمران خان کو مہنگائی کا احساس ہے اور وہ اس پر قابو پانے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں، آنے والے دنوں میں لوگوں کو حکومتی اقدامات کے ثمرات ملیں گے، پاکستان کے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب سمیت مشرق وسطی اور خلیجی ممالک کے ساتھ کل بھی مثالی تعلقات تھے اور آج بھی ہیں۔

اتوار کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹ کے معاملے پر اپوزیشن کو پیشکش کی تھی کہ آئیں مل بیٹھیں تاکہ شفاف انتخابات کیلئے حل نکالیں، پارٹی کی عددی اکثریت کے مطابق فیصلہ کریں تاکہ ہارس ٹریڈنگ اور خریدوفروخت کا خاتمہ ہو سکے، اپوزیشن نے پنجاب کی حد تک اسے مان لیا، اگر پنجاب پر وہ فارمولا اپلائی کر سکتے تھے تو مرکز میں کیوں نہیں؟ اپوزیشن نے اگر ہماری تجویز مانی ہوتی اور اوپن بیلٹ پر آمادہ ہو جاتے تو یوسف رضا گیلانی کو یہ خفت نہ اٹھانی پڑتی، وہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، اب سینیٹ کا ممبر بننے سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن نے خریدوفروخت کر کے عبدالحفیظ شیخ کو ہرایا، اسی دن ہماری خاتون امیدوار کامیاب ہوئیں کیوں کہ وہاں انہوں نے پیسہ نہیں لگایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اخلاقی طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کا صحیح قدم اٹھایا، یہ ان کا ہائی مورال گراﺅنڈ تھا قانوناً وہ اس کے پابند نہیں تھے، اب ان لوگوں کو بھی چاہیے تھا کہ وہ جرات کا مظاہرہ کرتے اور برملا کہتے کہ وہ انہیں ووٹ نہیں دینا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ قوم سمجھتی ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کس حالت میں ہمارے حوالے کیا، اداروں اور میعیشت کی کیا حالت تھی؟ سابق حکمرانوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا، تحریک انصاف نے مشکل وقت میں اقتدار سنبھالا اور ہمیں سخت فیصلے کرنے پڑے، ن لیگ کی حکومت نے ڈالر کو مصنوعی سہارا دیا ہوا تھا جب ڈالر کو مارکیٹ ریٹ پر ایڈجسٹ کیا تو روپیہ گرا اور مہنگائی ہوئی، وزیراعظم عمران خان کو مہنگائی کا احساس ہے اور انہوں نے ملکی معیشت کو سٹیبل کرنے کیلئے جامع اقدامات اٹھائے، اب اگلے مرحلے میں گروتھ کی طرف بڑھیں گے۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کا اتحاد غیرفطری اور عارضی ہے، یہ دیرپا نہیں ہے، ان کے نظریات اور موقف مختلف ہیں، یہ لوگ صرف وزیراعظم عمران خان کے خوف اور اپنے مفادات کی وجہ سے یکجا ہیںِ، یہ لوگ احتساب کے عمل سے راہ فرار چاہتے ہیں لیکن موجودہ حکومت احتساب کے عمل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی،یہ آئیں اگر آ کے ون آن ون مقابلہ کریں تو دیکھ لیں یہ کہاں کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے، سابقہ حکومتوں نے زراعت کے شعبے کو نظرانداز کیا، گزشتہ ایک دہائی میں ریسرچ پر صحیح توجہ نہیں دی گئی، 18ویں ترمیم کے بعد زراعت صوبوں کی ذمہ داری ہے، کاٹن کی پیداوار میں کمی کی وجہ ریسرچ کی ناکامی ہے، موجودہ حکومت نے زراعت کی پیداوار بڑھانے کیلئے چین کے ساتھ جوائنٹ ورکنگ گروپ بنایا ہے جو ریسرچ اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔

ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پرویز خٹک نے بھرپور انداز سے سینیٹ انتخابات میں عملاً حصہ لیا اور پورا کردار ادا کیا، وہ بالکل الگ نہیں ہوئے، باقی سیاسی لوگوں سے بھی مشاورت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی کا جائزہ لے رہی ہے جس کے بعد وہ اپنا فیصلہ سنائیں گے کہ وہ آگے کسطرح بڑھنا چاہتے ہیں، امریکہ اور پاکستان افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں، افغانستان مسئلے کا حل ملٹری نہیں صرف بات چیت ہے، وزیراعظم عمران خان عرصہ دراز سے اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ افغانستان مسئلے کے حل کیلئے سیاسی حل تلاش کرنا ہو گا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ گفت و شنید سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن مودی حکومت ہٹ دھرمی پر رہی اور پھر انہوں نے 5 اگست 2019ءکو ایسے اقدامات اٹھائے جو ہمارے لئے ناقابل قبول تھے، کشمیریوں نے بھی انہیں مسترد کیا، بی جے پی سرکار کے اقدامات سے دنیا بھی متاثر ہو رہی ہے اور ان کے اپنے ملک کے اندر بہت بڑا طبقہ نالاں ہے، مودی سرکار پر بیرونی اور اندرونی دباﺅ ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔

یو اے ای سے تعلقات کے بارے تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے یو اے ای، سعودی عرب سمیت مشرق وسطی اور خلیجی ممالک کے ساتھ کل بھی مثالی تعلقات تھے اور آج بھی ہیں، یو اے ای اور سعودی عرب نے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

سی پیک کے حوالے سے سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کوویڈ کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہوئی، پاکستان بھی ہوا، سی پیک کے پروجیکٹ جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کا بہترین حکمت عملی سے مقابلہ کیا، اب تیسری لہر کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔