اسلام آباد۔18جنوری (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ ایران سے ایل پی جی لانے میں ملوث پانچ جہازوں کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں، تحقیقات کے بعد ہی حقائق سامنے آئیں گے، ملک میں گزشتہ 10 سے 12 سال سے سردیوں میں گیس کی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا مسئلہ سامنے آتا ہے لیکن جب سے تحریک انصاف حکومت اقتدار میں آئی ہے تو عجیب سی بات شروع ہو جاتی ہے کہ حکومت نے بروقت ایل این جی امپورٹ نہیں کی، ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو ایل این جی سے جوڑنا غلط ہے۔
منگل کو نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایل این جی حکومت امپورٹ کرتی ہے جبکہ ایل پی جی کے جہاز پرائیویٹ سیکٹر منگواتے ہیں، بیرون ملک سے ایل پی جی لانے والے جہازوں پر پابندی نہیں ہے، پانچ جہازوں پر شک کیا گیا کہ وہ ایران سے ایل پی جی لائے ہیں،
ایران سے ایل پی جی لانے میں ملوث جہازوں کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں، ویسے تو ایل پی جی کسی بھی ملک سے امپورٹ کر سکتے ہیں لیکن ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ایل پی جی درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان میں ایل پی جی کی امپورٹ زیادہ تر عراق اور قطر سے ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں گزشتہ چند سال سے قدرتی گیس کے ذخائر سالانہ نو فیصد کے حساب سے کم ہو رہے ہیں، پیپلزپارٹی نے 2011ءمیں گیس کے ذخائرمیں کمی کو دیکھتے ہوئے گھریلو کنکشنز اور نئی اسکیمز پر پابندی لگا دی تھی، اب اس بات کو گیارہ سال گزر گئے ہیں اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کے ذخائر آدھے سے بھی کم ہو گئے ہیں،
ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا مسئلہ ہر سال سردیوں میں سامنے آتا ہے لیکن جب سے ہماری حکومت آئی ہے تو عجیب سی بات شروع ہوئی ہے کہ حکومت نے وقت پر ایل این جی امپورٹ نہیں کی، ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کو ایل این جی سے جوڑنا غلط ہے، ایل این جی بہت مہنگی ہے اس کو ایک حد سے زیادہ ڈومیسٹک سائیڈ پر نہیں ڈال سکتے۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ 1952ءمیں سوئی سے گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے تھے، اس کے بعد کوئی بڑا گیس کا کنواں دریافت نہیں ہوا، اب جو بھی ذخائر دریافت ہو رہے ہیں ان کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک قانون کے بارے تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک قانون پر ن لیگ سیاست کر رہی ہے، ن لیگ نے 2015ءمیں اسٹیٹ بینک قانون میں ترمیم کی تھی اور وفاقی حکومت کے تمام اختیارات اسٹیٹ بینک بورڈ کو دیئے تھے تاہم اسٹیٹ بینک کے نئے قانون میں لکھا گیا ہے کہ تمام بورڈ وفاقی حکومت مقرر کرے گی اور اسٹیٹ بینک کے تمام اثاثے وفاقی حکومت کے پاس رہیں گے،
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تقرری بھی حکومت ہی کرے گی۔ لاہور سے میئر کے انتخابات لڑنے سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں بھی یہ خبریں سن رہا ہوں لیکن پارٹی کی سطح پر اس پر ابھی کوئی گفتگو نہیں ہوئی، اس حوالے سے حتمی فیصلہ وزیراعظم عمران خان کریں گے، پارٹی جو فیصلہ کرے گی قبول ہوگا۔