اسلام آباد۔26مئی (اے پی پی):سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کی جانب سے پیر کو’’ہمیں ہر سطح پر سیاسی جماعتوں میں خواتین کی نمائندگی کی ضرورت کیوں ہے‘‘ کے عنوان سے ایک خصوسی سیمینار کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں پاکستان کی سیاسی ڈھانچے میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔
ماہرین اور پالیسی سازوں نے ایس ڈی پی آئی کی ڈسکشن پیپر *”ریزننگ ہر وائس ان پولیٹیکل پارٹیز”* کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا موجودہ نظام خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے میں ناکام رہا ہے۔سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد نے عام نشستوں پر خواتین کے لیے موجودہ 5 فیصد کوٹے کے کمزور نفاذ پر تنقید کی، اور کہا کہ جماعتیں اکثر خواتین کو غیر یقینی حلقوں میں کھڑا کرتی ہیں، جس سے کوٹے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر، پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروسز ظفر اللہ خان نے کہا کہ اگرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں میں خواتین ونگز موجود ہیں، لیکن ان کا فیصلہ سازی میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی 16 جماعتوں میں سے بہت کم نے اپنی اعلیٰ فیصلہ ساز اداروں میں خواتین کے لیے کوئی باقاعدہ کوٹہ مختص کیا ہے۔انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکٹورل سسٹمز شبیر احمد نے خبردار کیا کہ اگر جماعتوں میں اندرونی جمہوری طریقہ کار کے تحت خواتین کو سنجیدگی سے شامل نہ کیا گیا تو کوٹے محض عددی مشقیں بن کر رہ جائیں ۔
قائداعظم یونیورسٹی کی ڈاکٹر عالیہ امیر نے سیاسی جماعتوں میں منظم صلاحیت سازی اور خواتین کی شمولیت کے لیے مخصوص پروگراموں کی ضرورت پر زور دیا، جو نچلی سطح سے لے کر قیادت تک خواتین کو آگے لائیں۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر قاسم شاہ نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کی آبادی میں خواتین کا تناسب تقریباً 49 فیصد ہے، لیکن وہ صرف 20 فیصد قانون ساز نشستوں اور 9.4 فیصد وزارتی عہدوں پر فائز ہیں۔ انہوں نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 207 اور 208 میں فوری ترامیم کا مطالبہ کیا تاکہ سیاسی جماعتوں کی فیصلہ ساز تنظیموں میں خواتین کے لیے کم از کم 33 فیصد کوٹہ لازمی قرار دیا جائے۔
قاسم شاہ نے مزید تجویز دی کہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے لیے کم از کم 2,000 ارکان کی شرط میں ترمیم کرکے 33 فیصد خواتین ارکان کی لازمی شمولیت کو شامل کیا جائے، تاکہ رکنیت میں بھی ملکی آبادی کے تناسب کی عکاسی ہو۔سیمینار، جس میں سی پی ڈی آئی، ایف ای ایس، قائداعظم یونیورسٹی اور الیکشن کمیشن کے نمائندے شریک تھے، کا اختتام خواتین کی بامعنی سیاسی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے فوری قانون سازی کے مطالبے پر ہوا۔