اسلام آباد۔7اپریل (اے پی پی):ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شیخ سہیل احمد نے قومی خبر رساں ادارے (اے پی پی)میں ایک ارب 24 کروڑ روپے کے فراڈ کیس میں ملزمان کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر تمام ملزمان کی حاضری یقینی بنانے احکامات جاری کرتے ہوئے سماعت 15 اپریل تک ملتوی کر دی،عدالت نے آئندہ سماعت پر تمام فریقین کو جواب جمع کرانے کا بھی حکم دیا ہے۔عدالت کی بار بار طلبی کے باوجود ایف آئی اے کے تفتیشی آفیسر آج بھی پیش نہ ہوئے۔پیر کو عدالت نے سماعت کی اس دوران اے پی پی کے لیگل ایڈوائزر نذیر سلطان میکن پیش ہوئے اورموقف اختیارکیاکہ ایسوسی ایٹڈپریس آف پاکستان (اے پی پی ) ایک سرکاری ادارہ ہے جس میں ایک ارب 24 کروڑ روپےخورد برد کئے گئے ہیں ،مقدمہ کے اندراج کے لئے 4 ماہ سے ایف آئی اے نے درخواست دائر کی ہوئی ہے تاہم اس پر ایف آئی اے کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔
میری استدعا ہے کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات صادر فرمائے جائیں۔ اس کے علاوہ ملزم رائو فرقان کی طرف سے سردار عامر ایڈووکیٹ ، قاسم گجر کی طرف سے عطیہ صفدر جبکہ ملزم ارشد مجید چوہدری ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے اور ان کی طرف سے شفیق الرحمٰن ایڈووکیٹ نے وکالت نامہ جمع کرایا۔ملزم معظم جاوید کی جانب سے تیمور اسلم خان نے اپنا وکالت نامہ جمع کرایا۔ دوران سماعت فاضل جج نے استفسار کیاکہ ایف آئی اےکی نمائندگی کون کررہاہے ؟ جس پر ایف آئی اے کے نائب کورٹ چوہدری شفیق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر ارشاد بھٹی کیس کو دیکھ رہے ہیں۔ ان سے رابطہ ہوا ہے ، وہ اینٹی کرپشن عدالت میں پیش ہونے کے باعث آج پیش نہیں ہو سکتے۔
ایف آئی اےکے نائب کورٹ نے بتایا کہ مذکورہ درخواست اینٹی کرپشن سرکل کے پاس ہے جبکہ یہ کیس ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کابنتا ہے۔ ایف آئی اے کے نائب کورٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ سماعت ایک ہفتے کےلئے ملتوی کی جائے تا کہ آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر عدالت میں پیش ہو سکیں۔ عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست پر سماعت 15 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر تمام ملزمان کی حاضری یقینی بنانے کا بھی حکم دیا۔ یادرہے کہ عدالت میں دائر پٹیشن کے مطابق بے ضابطگیوں سے متعلق اطلاعات سامنے آنے پر اے پی پی انتظامیہ نے 1 ارب 24 کروڑ روپے خوردبرد کی تحقیقات کیلئے 24 جون 2024 میں محکمانہ انکوائری کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں وسیع پیمانے پر مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا، جس میں ملازمین سے متعلق اخراجات (ERE) اور پراویڈنٹ فنڈ (PF) اکاؤنٹس سے فنڈز کا غلط استعمال بھی شامل ہے۔
ریکارڈ کے مطابق کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزارت اطلاعات و نشریات کو پیش کی جس میں اس کیس کو مزید قانونی کارروائی کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) یا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھیجنے کی سفارش کی گئی۔ کمیٹی رپورٹ کے مطابق سرکاری خبر رساں ادارے کے ای آر ای اور پی ایف اکاؤنٹس سے 1.24 ارب روپے کا غبن کیا گیا ۔یہ غبن غیر مجاز لین دین، اختیارات کے غلط استعمال اور مالیاتی قوانین کی خلاف ورزی کے ذریعے کیا گیا۔دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ مالیاتی ریکارڈ جان بوجھ کر اے پی پی انتظامیہ کی دسترس سے دور رکھا اور بینک عملے کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا ،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اہم مالی دستاویزات بشمول کیش بک، تنخواہ/پنشن کی کریڈٹ شیٹس، اور 2021 سے 2023 کے ماسٹر لیجر غائب ہیں۔ ان ریکارڈز کو مبینہ طور پر سابق ذمہ داران نےضائع کیا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہےکہ اے پی پی کے بعض حکام کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے غیر قانونی طور پر منتقل کئے گئے۔جن کے ناقابل تردید ثبوت بینک اسٹیٹمنٹس کی صورت میں موجود ہیں۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق ایک اہلکار نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں 4.7 ملین روپے منتقل کئے، جبکہ دوسرے پر ERE اکاؤنٹ سے 15.4 ملین روپے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا الزام ہے۔دائر پٹیشن کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے ذاتی کھاتوں میں پی ایف فنڈز کی غیر قانونی منتقلی کا بھی پردہ چاک کیا۔ پی ایف اکاؤنٹ سے مجموعی طور پر 910.4 ملین روپے کا غبن کیا گیا، فنڈز بغیر اجازت کے مختلف ذاتی اکاؤنٹس میں بھیجے گئے۔ کمیٹی نے 16 اہم ملزمان کی نشاندہی کی جو اس سکینڈل میں ملوث ہیں۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں حکام کو سفارش کی کہ وہ ملزمان کے خلاف مکمل تحقیقات اور قانونی کارروائی کے لئے کیس نیب یا ایف آئی اے کو بھجوائیں۔ کمیٹی نے چوری شدہ رقوم کی وصولی کے لئے ملزمان کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثوں کی تفصیلی جانچ پڑتال کی بھی سفارش کی۔ رپورٹ میں مستقبل میں دھوکہ دہی کو روکنے کے لئے اہم عہدوں کےلئےسخت مالیاتی کنٹرول اور مناسب ریفرنس کے طریقہ کار کی سفارش کی گئی ہے ۔عدالت میں دائر پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ محکمانہ انکوائری میں لوٹ مار ثابت ہونے اور تمام شواہد سامنے آنے کے باوجودایف آئی اے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی سے گریزاں ہے جس کے باعث انصاف کے حصول کے لئے اے پی پی انتظامیہ کو ایف آئی آر کے اندراج کے لئے عدالت سے رجوع کرنا پڑا ہے۔دائر درخواست میں ڈی جی ایف آئی اے اور تفتیشی آفیسر سمیت دیگر افراد کو فریق بنایا گیا ہے ۔\932
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=579016