26.6 C
Islamabad
اتوار, اپریل 20, 2025
ہومشوبزایک عہد کے امین ، فنون لطیفہ کے سنہری ستون اداکار قوی...

ایک عہد کے امین ، فنون لطیفہ کے سنہری ستون اداکار قوی خان کی یاد میں

- Advertisement -

اسلام آباد۔5مارچ (اے پی پی):فلم ،ٹی وی اور تھیٹر کے لیجنڈری اداکار قوی خان کی منگل کو پہلی برسی منائی گئی ۔ پشاور میں پیدا ہونے والے محمد قوی خان کی شہرت کا پہلا زینہ ریڈیو تھا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان پشاور سے بطور چائلڈ ایکٹر اپنے کام کی ابتدا کی۔پاکستان میں 26 نومبر 1964ء وہ یادگار تاریخ ہے جب ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا۔ اس تاریخ کے ٹھیک 2 دن بعد پاکستان ٹیلی وژن سے پہلا ڈراما نشر ہونا تھا جس کے ہیرو محمد قوی خان تھے۔ اس ڈرامے کا نام ’نذرانہ‘ تھا ۔ قوی خان اس وقت سے لے کر تادمِ مرگ ٹیلی وژن ڈراما صنعت سے وابستہ رہے، یہ عرصہ لگ بھگ 7 دہائیوں پر مشتمل عرصہ ہے۔ اس میڈیم میں ان کو سب سے زیادہ شہرت 1980ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے ڈرامے ’اندھیرا اجالا‘ سے ملی۔

انہوں نے 1990ء کی دہائی میں ایک ڈرامے کے لیے مرزا غالب کا کردار بھی نبھایا اوراس کردار کو بھی امرکردیا۔ان کے چند دیگر مقبول ڈراموں میں لاکھوں میں تین، دہلیز، الف نون، فشار، مرزا اینڈ سنز، انگار وادی، آشیانہ، ریزہ ریزہ اور اڑان وغیرہ شامل ہیں۔ ماضی قریب کے ڈراموں میں داستان، دل موم کا دیا، خانی، صدقے تمہارے، میرا قاتل میرا دلدار وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے طویل اور مختصر دورانیے کے کھیلوں میں بھی انہوں نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ 2022ء میں ان کے دو ڈرامے ’پہچان‘ اور ’میری شہزادی‘ آن ایئر تھے۔پاکستانی فلمی صنعت میں محمد قوی خان نے 1960ء کی دہائی میں قدم رکھا۔

- Advertisement -

انہوں نے دلجیت مرزا کی فلم ’رواج‘ میں پہلی مرتبہ بطور اداکار ہی کام نہیں کیا بلکہ وہ اس فلم کے نائب ہدایت کار بھی تھے۔ یہ فلم 1965ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی فلموں میں ’بہورانی‘ وہ فلم تھی ۔ اس فلم پر انہیں بہترین معاون اداکار کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ فلمی صنعت میں بھی ان کے کام کرنے کا عرصہ تقریباً سات دہائیوں پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے 200 فلموں میں کام کیا۔ وہ اپنے وقت کی چند مشہور اداکاراؤں کے ساتھ بطور ہیرو بھی آئے جن میں دیبا، بابرہ شریف، زیبا اور دیگر شامل ہیں، لیکن انہوں نے زیادہ کام ثانوی کرداروں ہی میں کیا۔

اپنے کریئر میں آگے چل کر انہوں نے ڈراما کی صنعت پر توجہ مرکوز کرلی۔محمد قوی خان نے درجن بھر فلمیں بھی پروڈیوس کیں اور 1975ء میں ریلیز ہونے والی ایک فلم ’روشنی‘ کی ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے۔ انہوں نے جن فلموں کو بطور پروڈیوسر بنایا ان میں پہلی فلم ان کی مادری زبان پشتو میں تھی۔ اس فلم کا نام ’مہ جبینے‘ تھا اور اس کی ریلیز کا سال 1972ء ہے۔ اس فلم میں ان کے ساتھ آصف خان بھی ہیرو تھے۔ ان کی بنائی ہوئی دیگر فلموں میں مسٹر بدھو، بے ایمان (1973ء)، منجی کتھے ڈاہواں، نیلام (1974ء)، روشنی (1975ء)، جوانی دیوانی (1977ء)، چوری چوری (1979ء) پاسبان (1982ء)، گرفتاری (1986ء) اور ماں بنی دلہن (1988ء) شامل ہیں۔انہوں نے ماضی میں جن فلموں میں اداکاری کی ان میں سے چند معروف فلموں میں محبت زندگی ہے، ٹائیگر گینگ، سوسائٹی گرل، سرفروش، کالے چور، آج اور کل، صائمہ، بیگم جان، ناگ منی، رانگ نمبر، انٹرنیشنل لٹیرے، سر کٹا انسان، پری، قائداعظم زندہ باد اور دیگر شامل ہیں۔

ان کی زندگی کی آخری مختصر فلم ’نانو اور میں‘ نے بھی کئی بین الاقوامی فلمی میلوں میں توجہ حاصل کی ۔ ان کی زندگی کی آخری فیچر فلم ایک انگریزی اور بین الاقوامی فلم ’آئی ول میٹ یو دیئر‘ تھی جس میں انہوں نے پاکستانی نژاد امریکی اداکار ’فاران طاہر‘ کے ساتھ بہترین کردار نبھایا تاہم اس فلم کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہ مل سکی۔ وہ اس فلم میں کام کرکے بے حد خوش تھے۔ پاکستان میں نمائش پذیر ہونے والی ان کی آخری فلم ’قائداعظم زندہ باد‘ تھی۔محمد قوی خان پاکستان ٹیلی وژن کے پہلے فنکار تھے جن کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ملا، پھر ستارہ امتیاز بھی وصول کیا۔

انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز ملے۔ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت میں آسکر ایوارڈز جیسی اہمیت رکھنے والے نگار ایوارڈ بھی 3 بار حاصل کیا۔ وہ گزشتہ سال پانچ مارچ کو مختصر علالت کے بعد کینیڈا انتقال کر گئے تھے جہاں وہ زیر علاج تھے ۔محمد قوی خان کے رخصت ہونے سے صرف ایک فرد رخصت نہیں ہوا بلکہ ایک عہد تمام ہوا ہے۔وہ ہمارا بچپن، سنہری دور کی یادیں، سماج سے جڑے ہوئے کردار، تہذیب کی عملی روایت، رکھ رکھاؤ اور عاجزی و انکساری کی صفت بھی ساتھ لے گئے ۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=445135

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں