اسلام آباد۔20نومبر (اے پی پی):سابق امریکی صدر باراک اوباما نے نومبر 2020 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ” اے پرومسڈ لینڈ”میں بھارت میں مسلم مخالف انتہا پسندی اور پاکستان دُشمنی کے بارے میں چند اہم حقائق سے پردہ اُٹھایا۔ بارک اُبامہ نےاپنی کتاب کے صفحہ نمبر600اور601 میں بھارت کے دورے کے دوران سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سِنگھ سے ملاقات کا حوالہ اور اپنی ذاتی رائے دیتے ہوئے لِکھا کہ ”بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جذبات نے ہندو قوم پرست بی جے پی کے اثر کومضبوط کیا ”(یاد رہے کہ اس وقت حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت بے جے پی تھی)۔ سابق بھارتی وزیراعظم کے اپنے بیان کے مطابق ”بھارت میں کسی غیر یقینی صورتحال میں مذہبی اور نسلی یکجہتی کے غلط استعمال سے فائدہ اُٹھانا بھارتی سیاستدانوں کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ”۔ اُنھوں نے یہ بھی لکھا کہ جنونیت اور انتہا پسندی بھارتی معاشرے میں سرکاری اور نجی سطح پر بہت گہرائی تک سرائیت کر چکی ہے اور پاکستان دُشمنی بھارت میں قومی یکجہتی اُجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ بہت سے بھارتی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ بھارت نے پاکستانی جوہری طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے ایٹمی ہتھیار تیار کیے۔ان کو اس بات کا قطعاََ ادراک نہیں کہ کسی بھی طرف سے ذرا سی غلطی پورے خطے کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ آج مجموعی طور پر بھارتی معاشرہ نسل اورقوم پرستی کے گرد مرکوزہے۔معاشی ترقی کے باوجود، بھارت ایک منتشر اور بے حال ملک ہے، جو بُنیادی طور پر مذہب اور قوم میں بٹا ہوا ہے اور بد عنوان سیاسی عہدے داروں، تنگ نظر سرکاری افسروں اور سیاسی شعبدہ بازوں کی گرفت میں ہے۔ انتہا پسندی، جنونیت، بھوک، بدعنوانی، قومیت، نسلیت اور مذہبی عدم رواداری اس حد تک مضبوط ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی جمہوری نظام اس کو مستقل طور پر جکڑ نہیں سکتا۔یہ تمام مسائل اگر وقتی طور پر قابو میں بھی ہو جائیں تو معاشی ترقی کی رکاوٹ یا آبادیاتی تبدیلی یا کسی طاقتور سیاسی رہنما کے ہوا دینے پر لوگ دوبارہ انتہا پسندی اور سر کشی کی نظر ہو جاتے ہیں۔ اُبامہ نے اپنی کتاب میں من موہن سنگھ کے وزیراعظم کے عہدہ تک پہنچنے کی تعریف بھی کی کیونکہ بھارت میں سِکھ اقلیت کو اکثر نشانہ بنایا جا تا ہے۔