اسلام آباد۔18جنوری (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ براڈ شیٹ کیس کے ثالثی جج کا فیصلہ پبلک کر دیا گیا ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں 2016سے 2018تک براڈ شیٹ کے دعووں کی شنوائی ہوئی، براڈ شیٹ کا دعویٰ تھا کہ حکومت پاکستان کے ذمہ ہمارے پیسے بنتے ہیں، 31 دسمبر 2020کو براڈ شیٹ کو پیسے ادا کئے گئے، اگر پیسے ادا نہ کئے جاتے تو پاکستان کے بیرون ملک اثاثے منجمد کئے جا سکتے تھے، ہم نے جو دستاویز پبلک کی ہیں، یہ اسے بھی ماننے سے انکار کر دیں گے کیونکہ یہی ان کی روایت ہے، ہم ان کا کیا ہوا بھگت رہے ہیں، براڈ شیٹ کے فیصلوں کو یہ چھپا کر گئے تھے، موجودہ حکومت سے بھی انہوں نے ایسی ہی ڈیل مانگی، اگر ہم ان کی بات مان لیں تو قوم کو مزید اسی طرح کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ کسی کی خودکشی کو نیب سے منسوب کرنا درست نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ نیب کے فزیکل ریمانڈ پر صرف دو افراد ہلاک ہوئے جن میں 2004ءمیں سجاد نامی شخص اور 2014ءمیں رزاق بھٹی شامل ہیں۔ یہ تاثر دینا کہ حالیہ وقت میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو وہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ بریگیڈیئر اسد منیر کی خودکشی کا معاملہ افسوسناک ہے لیکن اسے نیب سے منسوب کرنا غلط ہے۔ اگر ان کی فیملی یہ کلیم کرتی ہے کہ ان کی ہلاکت نیب کی حراست کے دوران ہوئی تو اس معاملہ کی تحقیقات کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے، میں ہائوس کے ریکارڈ پر کچھ اہم چیزیں رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ غلط فہمی چل رہی ہے کہ اصل چیز لائبلٹی ایوارڈ دستیاب ہی نہیں ہے جو دو فریقین کے درمیان تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے براڈ شیٹ کے وکیل سے رابطہ کرنے کا کہا اور آج تینوں آرڈر ان کی ڈیمانڈ پر پبلک کر دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کے ریکارڈ کے لئے ٹائم لائن کو واضح کرنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مئی 2000ءمیں براڈ شیٹ اور انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری (آئی اے آر) کو حکومت پاکستان کے کیس میں شامل کیا جاتا ہے۔ مئی 2000ءکے بعد دسمبر 2000ءمیں نواز شریف ایک ڈیل کے تحت پاکستان سے سعودی عرب چلے جاتے ہیں، یہ معاہدہ اس فیصلے کے تحت جاری رہتا ہے۔ 2003ءمیں آئی اے آر اور براڈ شیٹ کے ساتھ یہ معاہدہ منسوخ کر دیا جاتا ہے اور 2007ءمیں یہ دونوں کمپنیاں حکومت پاکستان کو بقایا جات کی ادائیگی کا نوٹس بھجواتی ہیں۔ 2008ءمیں ادائیگی کر دی جاتی ہے۔ سیٹلمنٹ کے تحت 2.25 ملین ڈالر آئی اے آر نامی کمپنی کو اور مئی 2008ءمیں دوسرا سیٹلمنٹ ایگریمنٹ براڈ شیٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس وقت یوسف رضا گیلانی کی حکومت تھی۔ بعد میں 2009ءمیں ایک نیا نوٹس موصول ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان نے ہمارا اتنا پیسہ ادا کرنا ہے۔ اس وقت کی حکومت کہتی ہے کہ ہم نے پیسے ادا کر دیئے ہیں۔ بعد ازاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی غلط کمپنی یا شخص کو پیسے ادا کئے گئے جو 1.5 ملین ڈالر تھے۔ 2009ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت اس پر کارروائی شروع کرتی ہے، اس میں کافی لیٹرز لکھے جاتے ہیں، لائبلٹی ایوارڈ کی لائبلٹی مقرر کی جاتی ہے کہ کس کا موقف درست ہے، آیا براڈ شیٹ کا موقف درست ہے یا حکومت پاکستان کا۔ جنوری 2016ءمیں اس کی سماعت لندن میں ہوتی ہے اور پاکستان کی حکومت اپنا مقدمہ لڑتی ہے، اس وقت نواز شریف کی حکومت تھی۔ اگست 2016ءمیں اس کا ایوارڈ آ جاتا ہے، اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ یہ ایوارڈ حکومت پاکستان کے کہنے پر پبلک نہیں کیا جاتا۔ اس کے بعد یہ طے کیا جاتا ہے کہ ان کو کتنا پیسہ ادا کیا جائے کیونکہ یہ بات تو طے ہو گئی کہ ان کا پیسہ بنتا ہے۔ اس پر بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں 2016ءسے 2018ءتک بحث چلتی ہے۔ اٹارنی جنرل آفس اس کو کنڈکٹ کرتا ہے، 2018ءکے انتخابات سے لائبلٹی کی پروسیڈنگز مکمل ہو جاتی ہیں اور لائبلٹی مقرر کرلی جاتی ہے۔ اس کے بعد قائم مقام دور حکومت میں لندن میں ہائی کورٹ فورم پر اپیل کی جاتی ہے۔ اس اپیل کا فیصلہ 2018ءمیں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام چیزوں کو اس وقت کی حکومت کے کہنے پر خفیہ رکھا گیا۔ اگر اس کی لائبلٹی کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو یہ چیز روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔ براڈ شیٹ کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے اثاثے تلاش کرنے کے لئے ہماری خدمات حاصل کیں اور 200 لوگوں کا ٹارگٹ دیا۔ یہ معاہدہ اچھا تھا یا برا اس پر ہم بہت بحث کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اس وقت یہ معاہدہ درست تھا، کیا اس کے بعد اس معاہدے کو ٹھیک طریقے سے ختم کیا گیا، کیا اس میں پاکستان کے مفاد کو دیکھا گیا۔ براڈ شیٹ کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمارا ایگریمنٹ ختم کیا لیکن حکومت پاکستان کے ذمہ ہمارے پیسے بنتے ہیں، دوسری جانب حکومت پاکستان کہتی تھی کہ ہمارے ذمہ کوئی پیسے نہیں بنتے۔ آربٹریٹر اینتھونی ایونز کی خدمات حاصل کی گئیں، اس نے سب سے پہلے کہا کہ حکومت پاکستان کا قصور ہے کہ اس نے کوئی ڈیل کی۔ اس ڈیل کے نتیجے میں کمپنی کی آمدن کو نقصان ہوا۔ کوانٹم کے فیصلے ہیں، اس میں دو حصے مقرر کئے گئے۔ 100 ملین ڈالر جو 16 ارب روپے بنتا ہے، اس کا حصہ مقرر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوانٹم کا فیصلہ یہ ایک اہم دستاویز ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پیسے کس مد میں ادا کئے گئے۔ اس میں چھ لوگوں کا نام ہے جس میں ان کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک نام شون گروپ کا ہے جس کے 48760 ڈالر ہیں، دوسرا نام لاکھانی کا جن کے 25 ہزار ڈالر ہیں، فوزی کاظمی کے 85 ہزار ڈالر، جنرل زاہد علی اکبر کے تین لاکھ 81 ہزار ڈالر، شیرپائو کے 2 لاکھ 10 ہزار ڈالر اور انصاری کے ایک لاکھ 80 ہزار اور ایک لاکھ 58 ہزار ڈالر ہیں۔ یہ مجموعی طور پر ایک ملین ڈالر بنتے ہیں جس کا بتایا گیا کہ یہ ادا کرنا ہیں۔ یہ 20 فیصد حصہ بنتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ 80 فیصد ریکوری کرلی گئی ہے۔ اس فیصلے کے دوسرے حصے میں ٹوٹل ایوارڈ 21.5 ملین ڈالر ہے جس میں شریف (ایون فیلڈ) 1.5 ملین ڈالر کا 20 فیصد حصہ ہے جو حکومت نے ادا کرنے ہیں کیونکہ اس نے 2000ءمیں بھی ایون فیلڈ کے ثبوت لاکر دیئے، وہ ایون فیلڈ فلیٹ جس کو یہ لوگ آج بھی نہیں مانتے کہ ہم نے 2000ءمیں لیا تھا جبکہ ریکارڈ کے مطابق 90ءسے یہ اس میں رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے کہا کہ شریف فیملی کے دیگر اثاثوں میں 19 ملین ڈالر کی لائبلٹی ڈالی گئی جو 20 فیصد ہے۔ یہ 21.5 ملین ڈالر کی مجموعی لائبلٹی تھی، اس میں سود کی رقم ملا کر مجموعی طور پر 29 ملین ڈالر کی ادائیگی کی گئی کیونکہ کافی عرصہ سے اس کیس کو نمٹایا نہیں گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس رقم میں سے صرف 20.5 ملین ڈالر شریف خاندان کے اثاثوں کو تلاش کرنے کیلئے ادا کئے گئے۔ 2016ءمیں لائبلٹی کا فیصلہ آیا، کوانٹم 2018ءمیں آیا، 31 دسمبر 2020ءکو پیسے ادا کئے گئے اور اگر اب بھی ان کو پیسے ادا نہ کئے جاتے تو پاکستان کے بیرون ملک اثاثے منجمد کئے جا سکتے تھے کیونکہ پاکستان کے پاس اپیل کا کوئی حق باقی نہیں رہا تھا جبکہ اس پر پانچ ہزار ڈالر یومیہ سود بھی مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج جو دستاویز پبلک کی گئی ہے، اب یہ اسے بھی ماننے سے انکار کر دیں گے کیونکہ یہاں روایت چلتی آئی ہے کہ ہم جے آئی ٹی کو نہیں مانتے، ہم پانامہ کو نہیں مانتے، ہم سپریم کورٹ کے فلاں فیصلے کو نہیں مانیں گے، فلاں کو مانیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم ان کا کیا ہوا بھگت رہے ہیں، براڈ شیٹ کے فیصلوں کو یہ لوگ چھپاکر گئے تھے۔ یہ ہونا ہے کہ یہ کس نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہم سے بھی ایسی ہی ڈیل مانگی، 34 نکات لائے، آج ہم اگر ان کی بات مان لیں تو قوم مزید اس طرح کے خمیازہ بھگتے گی۔