اسلام آباد۔2فروری (اے پی پی):اردو کے نامور ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار انتظار حسین کی آٹھویں برسی جمعہ کو منائی گئی۔1925 میں ہندوستان میں پیدا ہونے والے انتظار حسین نے اپنے ناولوں، مختصر کہانیوں، شاعری اور نان فکشن کے ذریعے وسیع شہرت حاصل کی۔انتظار حسین نے ضلع میرٹھ کے شہر ہاپوڑ میں تعلیم پائی اور سنہ 1946 میں میرٹھ کالج سے اُردو میں ایم اے کیا۔ اکتوبر 1947 میں محمد حسن عسکری کی دعوت پر انڈیا چھوڑا اور پاکستان آ کر لاہور میں پڑاؤ ڈالا، پھر یہی اُن کا وطن ٹھہرا۔صحافت کو پیشہ بنایا اور سنہ 1948 کے اوائل میں ہفت روزہ ’نظام‘ سے بطور مدیر منسلک ہوئے۔
یہاں کم و بیش دو سال کام کرنے کے بعد روزنامہ ’امروز‘سے بطور نائب مدیر وابستہ ہوئے پھر روزنامہ ’اتفاق‘ میں کام کیا۔ اس کے بعد روزنامہ ’مشرق‘ میں کالم نگاری کا آغاز کیا جہاں 25 برس تک ’لاہور نامہ‘ کے عنوان سے روزانہ کالم لکھا جس کو بہت شہرت ملی۔انھوں نے روزنامہ آج کل اور ایکسپریس میں بھی کالم نگاری کی اور سول اینڈ ملٹری گزٹ، فرنٹیئر پوسٹ اور ڈان کے لیے انگریزی میں بھی کالم لکھے۔
درمیان میں کچھ عرصے وہ ’خیال‘ اور ’ادبِ لطیف‘ کے مدیر اور حلقہ ارباب ذوق کے سیکریٹری بھی رہے۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے ‘‘ 1953ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم ’’لاہور نامہ‘‘ کو بہت شہرت ملی ۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کی کتابوں میں سے "بستی” اور "خالی پنجره” کا سمیرا گیلانی نے فارسی میں بھی ترجمہ کیا ہے۔
انتظار حسین کی فنی زندگی کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ افسانہ نگار اور ناول نگار تو تھے ہی مگر انھوں نے تنقید، تراجم، یادنگاری اور صحافت کے میدان میں بھی اپنے نقوش رقم کیے۔ وہ خود کو بنیادی طور پر افسانہ نگار کہتے تھے۔ جن کے کئی مجموعے گلی کوچے، کنکری، آخری آدمی، شہر افسوس، کچھوے، خیمے سے دور، خالی پنجرہ اور شہرزاد کے نام سے سرفہرست ہیں۔ان کے ناولوں میں چاند گہن، بستی، تذکرہ (نیا گھر)، آگے سمندر ہے اور سمندر کا بلاوا کے علاوہ ایک مختصر ناول دن اور داستان شامل ہیں۔ ان کے ادبی کارنامے اردوادب میں ہمیشہ زندہ جاوید ہیں۔
کیونکہ ان کی تحریریں ہمیں ماضی کی بازیافت کی یاد دلاتی ہے۔ انتظار حسین کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔ لیکن انہوں نے ناول بھی لکھے اور انگریزی و روسی ادب کے تراجم بھی کیے ۔ ڈرامے بھی لکھے اور رپورتاژ بھی ۔ ادبی اور تنقیدی مضامین ان کے افسانوی مجموعوںمیں ملتے ہیں ۔
انہوں نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ادب انعام سے نوازا تھا۔ حکومتِ فرانس کی طرف سے انہیں ستمبر 2014ء، آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز اعزاز سے نوازا گیا۔ انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا ۔انتظار حسین کا 2 فروری 2016ء کو مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال ہوا ۔