لندن ۔7مارچ (اے پی پی):برطانیہ میں ممکنہ جدید غلامی کا شکار افراد کی تعداد میں گزشتہ سال ریکارڈ اضافہ ہوا، یہ صورتِ حال انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے جرم کو نمایاں کرتی ہے جس کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کو فوری پالیسی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
العربیہ کے مطابق برطانوی وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ متاثرین کی شناخت اور تحفظ کے برطانوی نظام نیشنل ریفرل میکانزم (این آر ایم) میں 2024 میں ممکنہ متأثرین کے 19,125 حوالہ جات تھے جو 2023 کے 17,000 کے ریکارڈ سے زیادہ ہے۔عالمی سطح پر غربت، تنازعات اور ہجرت کی ملی جلی وجوہات کی بنا پر جدید غلامی بشمول انسانی سمگلنگ، غلامی، غلامانہ یا جبری مشقت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے لاکھوں لوگ متأثر ہو رہے ہیں۔برطانیہ میں یہ جرم مختلف شکلوں میں موجود ہے جہاں مردوں، عورتوں اور بچوں کو منشیات یا جنسی تجارت، گاڑیاں دھونا، بیوٹی پارلر، نجی گھروں یا سماجی نگہداشت کے شعبے میں استحصالی کام پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ اینٹی سلیوری انٹرنیشنل کے مطابق برطانیہ میں جدید غلامی میں رہنے والے لوگوں کی حقیقی تعداد تقریباً 130,000 بتائی جاتی ہے۔این آر ایم کے اعدداد و شمار میں تقریباً 23 فیصد حوالہ جات برطانوی شہریوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو تعداد میں سب سے زیادہ ہیں جبکہ البانیائی 13 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھے، اس کے بعد ویتنام کے لوگ 11 فیصد رہے،ان میں تقریباً 31 فیصد یا تقریباً 6,000 بچے تھے۔
خیراتی اداروں اور قانون سازوں نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ مزدور قوانین کے مضبوط نفاذ کو یقینی بنا کر اور امیگریشن پالیسی میں اصلاحات کر کے جدید غلامی سے نمٹنے کے لیے اپنا طرزِ عمل تبدیل کرے جس نے غیر قانونی ہجرت کو روکنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔رائٹرز نے گزشتہ ماہ اطلاع دی تھی کہ امیگریشن کی سخت پالیسیوں کے باعث ہزاروں لوگ جدید غلامی میں پھنسے ہوئے ہیں اور ملک بدری کے خوف سے ان کے آگے آنے کا امکان کم ہے۔حکومت نے این آر ایم میں معاونت کے دعووں پر کارروائی کرنے کے لیے تحقیق و تفتیش کرنے والے مزید درجنوں افراد کی خدمات حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔