اسلام آباد۔23دسمبر (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ برطانیہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی کیلئے مطالبہ کیا گیا ہے، سلیم مانڈوی والا سینٹ کے پلیٹ فارم کو اپنے مفاد کیلئے استعمال نہ کریں۔ بدھ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے نواز شریف کی واپسی کیلئے کہا گیا ہے جو ایک سزا یافتہ شخص ہے، برطانوی حکومت نے یقین دلایا ہے کہ نواز شریف کے ویزہ توسیع کے موقع پر اس معاملہ کا جائزہ لیا جائے گا۔ بیرسٹر شہزاد اکبر نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپوزیشن کو این آر او نہیں دے گی۔ نیب پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا کے الزامات کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ دھمکیاں نہ دیں، انہیں یہ عہدہ قانون سازی کیلئے ملا ہے، وہ سینٹ پلیٹ فارم اپنے مفاد کیلئے استعمال نہ کریں۔ معاون خصوصی نے کہا کہ اپوزیشن نے فیٹف کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ پی ڈی ایم کی پیدائش کے حوالہ سے انہوں نے بتایا کہ مالیاتی نظام میں شفافیت کیلئے فیٹف نے طریقہ کار وضع کیا اور ان اہداف کے حصول کیلئے قانون سازی کی ضرورت تھی جس کیلئے اپوزیشن کا تعاون درکار تھا تاہم اپوزیشن نے فیٹف پر ترامیم کی منظوری کیلئے شرائط رکھیں جو ایک طرح سے معافی مانگنے کی کوشش تھی، اگر نیب قوانین میں ان کی 34 ترامیم پر دستخط کر دیتے تو شہباز شریف اور آصف زرداری کے کیس ختم ہو جاتے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کہتی ہے کہ ایک ارب روپے سے کم کا کیس ہو تو نیب نہ پکڑے، یہ لوگ غیر قانونی اثاثوں اور پیسوں پر معافی چاہتے تھے کہ ان کی نااہلی کی سزا 10 سال سے کم کرکے 5 سال کر دی جائے، اپوزیشن نے بارگین کی بڑی کوشش کی لیکن حکومت نے ایسا کرنے سے انکار کیا جس کے بعد پی ڈی ایم پیدا ہوئی، یہ لوگ پوری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں، ان کا ایجنڈا صرف این آر او پلس پلس ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلیم ماونڈوی والا کے پاس عہدہ ایک امانت ہے، سینٹ میں ذاتی مفاد کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے قانون سازی ہوتی ہے، ڈپٹی چیئرمین سینٹ اپنے دفتر کو اپنے مفاد کیلئے استعمال نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ سلیم مانڈوی والا اداروں کو دھمکیاں رہے ہیں جو رکن پارلیمنٹ کے شایان شان نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اداروں کی تضحیک برداشت نہیں کرے گی اور بھرپور جواب دے گی۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلہ کا معاہدہ فعال ہو گیا ہے، یہ معاملہ ان کا ہے جو پاکستان میں قانون کے تحت درکار ہیں، نواز شریف کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ وہ سزا یافتہ شخص ہیں، سابق وزیراعظم علاج کی شرائط پر برطانیہ گئے تھے۔