اسلام آباد۔29اپریل (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ بشیر میمن کے معاملے پر واضح جواب دے چکے ہیں، شہزاد اکبر نے بشیر میمن کو لیگل نوٹس بھیجا ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، بشیر میمن کے خلاف بھی کیسز چل رہے ہیں، بشیر میمن کا بیٹا بزنس کے لئے کسی دوسرے برانڈ کا نام استعمال کر رہے ہیں، کل بشیر میمن سے متعلق حقائق سامنے لائوں گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کل ایک پریس کانفرنس کر کے بشیر میمن سے متعلق حقائق سامنے لائوں گا، بشیر میمن 2019ء سے ایک کاروبار میں کسی دوسرے برانڈ کا نام استعمال کر کے کاروبار کر رہے ہیں، جس برانڈ کا نام بشیر میمن استعمال کر رہے ہیں اس کمپنی کی ایسوسی ایشن کی جانب سے ان کو مطلع بھی کیا گیا، پھر بشیر میمن نے اس برانڈ کے عہدیداران پر ایف آئی کی جانب سے دبائو ڈالا، اس کے بعد وہ کمپنی عدالت چلی گئی اور عدالت سے سٹے آرڈرز لے لئے،
اس کے باوجود بشیر میمن نے ایف آئی اے سے دبائو ڈال کر اپنا بزنس جاری رکھا۔ انہوں نے کہا کہ بشیر میمن کی سندھ میں موجود ایک مل شاید عدالت کے حکم پر بند ہونے جا رہی ہے کیونکہ بشیر میمن کا بیٹا اوران کا خاندان جعل سازی کا مرتکب ہے، اس لئے بشیر میمن پیشگی حربہ کے طور پر بہتان بازی کر رہے ہیں تاکہ کل کو یہ لگے کہ حکومت ان کے خلاف کوئی زیادتی کر رہی ہے جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، بشیر میمن کے اس حوالے سے کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں، جن کے ثبوت کل میں میڈیا کے سامنے پیش کر دوں گا۔ معاون خصوصی نے کہا کہ پوری دنیا کے قانون کے مطابق جب کوئی شخص کسی پر الزام لگاتا ہے تو پھر اس کو وہ الزام ثابت بھی کرنا ہوتا ہے، اگر کوئی شخص اپنے لگائے گئے الزامات ثابت نہیں کر سکتا تو پھر وہ ان الزامات کا ذمہ دار ہو گا،
اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے کوئی بات تھی تو قاضی فائز عیسیٰ کا کیس عدالت میں چل رہا تھا، بشیر میمن کو اس وقت عدالت چلے جانا چاہیے تھا اور اپنے ریمارکس دینے چاہئیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ بشیر میمن کے الزامات کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے ان کو نوٹس بھجوا دیا ہے، اب بشیر میمن عدالت جائیں اور اپنے الزامات کو ثابت کریں، اس طرح حقیقت سب کے سامنے آ جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ صرف جہانگیر ترین شوگر ملز کی نہیں بلکہ 22 شوگر ملوں کی تحقیقات ہو رہی ہیں، شوگر کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی سے ڈاکٹر رضوان کو الگ نہیں کیا گیا بلکہ ابو بکر خدا بخش جو کہ ایک سینئر آفیسر ہیں،
کو بھی تحقیقاتی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے تاکہ معاملات مزید بہتر انداز اور تیز رفتاری سے چل سکیں لیکن کسی کو بھی کسی تحقیقاتی عمل سے الگ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں فواد چوہدری کی کارکردگی شاندار رہی، پاکستان میں ویٹی لیٹرز بن رہے ہیں اور ایکسپورٹ کے آرڈرز بھی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بشیر میمن کے الزامات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن سے زیادہ بہتر فورم موجود ہے،
شہزاد اکبر نے بشیر میمن کو لیگل نوٹس بھجوا دیا ہے، جب لیگل نوٹس کی مدت پوری ہو گی تو کیس کیا جائے گا اور پھر یہ کیس عدالت کے سامنے چلا جائے گا، جوڈیشل انکوائری میں تو صرف تحقیقات کی جاتی ہیں سزا نہیں دی جا سکتی جبکہ عدالت میں کیس جانے سے سزا بھی ہو گی، اس لئے عدالت زیادہ بہتر فورم ہے، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔