اسلام آباد۔16مئی (اے پی پی):وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ بلوچستان کے 76 فیڈرز پر لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی مگر جن فیڈرز پر لائن لاسز کی شرح 30 سے 40 فیصد ہے ان پر لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، تکنیکی اور انتظامی بنیادوں پر وولٹیج کے اتارچڑھائو اور بجلی کی بندش کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہم نے سخت ہدایات جاری کی ہیں، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے صارفین اور حکومت کے ذمہ 339 ارب روپے کے بقایا جات کی ریکوری کرنے میں ہماری مدد کریں، اس سے وہاں پر بجلی کی صورتحال اور بہتر ہو جائے گی، سابق حکومت کی نااہلی سے گردشی قرضوں کا حجم 2460 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس سے توانائی کے شعبے میں مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
پیر کو قومی اسمبلی میں جے یو آئی (ف) کی رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران کے بلوچستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے متعلق توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کہا کہ 2013ء میں جب ہماری حکومت برسراقتدار آئی تو اس وقت ہمیں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا سامنا تھا، ہم نے بجلی کے کارخانے لگائے اور31 مئی 2018ء تک 12 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کرکے لوڈشیڈنگ ختم کی۔ سابق حکومت کی نااہلی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ پھر شروع ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے حکم پر یکم مئی سے 11 مئی تک لوڈشیڈنگ پر قابو پایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم لوڈشیڈنگ صفر کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک اصول وضع کیا گیا ہے۔ جن جن فیڈرز میں کم لائن لاسز ہیں ان پر بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیںہوتی مگر جن فیڈرز میں لائن لاسز ہیں انہیں کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان پر دو ، چار اور چھ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ بلوچستان کے 76 فیڈرز پر لوڈشیڈنگ اب بھی صفر ہے۔ مگر جن پر لائن لاسز 30 سے 40 فیصد ہیں ان پر لوڈشیڈنگ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کی پیداوار کی صلاحیت موجود تھی مگر سابق حکومت نے لائن لاسز اور ریکوریوں پر کوئی کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں بجلی کی صورتحال بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بلوچستان کے دیہی علاقوں سے ریکوری میں مشکلات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے کاشتکاروں کے 75 ہزار روپے تک کے بل پر ہم نے اپنے سابق دور میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ کاشتکار صرف 10 ہزار روپے دے گا۔ 60 ہزار کا بل بلوچستان کی صوبائی حکومت اور باقی مرکزی حکومت دے گی۔ بلوچستان کے ذمہ 339 ارب روپے کے بقایا جات موجود ہیں، یہ رقم مل گئی تو وہاں پر لوڈشیڈنگ مکمل ختم ہو جائے گی۔ ہم بلوچستان کے اراکین اسمبلی سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں۔
آج بھی ملک میں 21 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے ۔ سابق حکومت نے نااہلی کا مظاہرہ کیا اور بروقت آر ایل این جی نہیں خریدی، وہ تیل پر بجلی بناتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں توانائی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ توجہ مبذول نوٹس پر عالیہ کامران، سید محمود شاہ اور ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو کے سوالوں کے جواب میں وفاقی وزیر خرم دستگیر نے کہا کہ ہماری حکومت شفافیت پر یقین رکھتی ہے، جہاں جہاں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے ہمارے علم میں لائی جائے ہم متعلقہ فیڈر کی کیٹگری کے حوالے سے تمام تفصیلات فراہم کردیں گے۔
وولٹیج میں اتار چڑھائو ٹیکنیکل مسئلہ ہے۔ تکنیکی بنیادوں پر بجلی کی بندش کے مسئلہ کا ہم نے نوٹس لیا ہے یہ مسئلہ حل کیا جائے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجلی کے حوالے سے بلوچستان کے ارکان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے پاس آئیں ہم تمام مسائل ان کے سامنے رکھ دیں گے پھر ان کی رہنمائی میں آگے چلیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں خرم دستگیر نے کہا کہ وزارت توانائی پر 2660 ارب روپے کا گردشی قرضہ ہے جس میں اضافہ سابق حکومت نے کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی کی قیمت اب ایک چوتھائی رہ گئی ہے، ہم بلوچستان کے دور دراز علاقوں کو آف گرڈ مل کے تحت شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرکے دیں گے۔ پینے کے پانی کی فراہمی ہماری ترجیح ہے۔ ایسے علاقے کی ضرور نشاندہی کی جائے ہم اقدامات اٹھائیں گے۔
پیسکو کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے وزیر توانائی کو ہدایت کی کہ پیسکو حکام کو ہدایت کی جائے کہ بجلی کی ترسیل میں فالٹ کی وجہ سے جو رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اس کا دورانیہ کم سے کم ہونا چاہیے۔