ڈھاکہ۔7اگست (اے پی پی):بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے افسران نےچار ڈپٹی گورنرز سمیت چھ اعلیٰ عہدیداروں سے زبردستی استعفے لے لئے ۔ڈھاکا ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق کئی عینی شاہدین نے بتایا کہ مشتعل افسران پہلے ڈپٹی گورنر قاضی سید الرحمان کے کمرے میں داخل ہوئے اور ان پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ قاضی سید الرحمٰن نے اپنا استعفیٰ ایک خالی کاغذ پر لکھا اور بینک چھوڑنے سے پہلے اس پر دستخط کر دیئے۔ اس کے بعد مشتعل افسران نے ڈپٹی گورنر نورالنہار، محمد خورشید عالم اور محمد حبیب الرحمان کو مستعفی ہونے پر مجبور کرتے ہوئے خالی کاغذات پر دستخط کروا لئے۔
بعد ازاں بنگلہ دیش بینک کے مشیر ابو فرح ناصر اور بنگلہ دیش فنانشل انٹیلی جنس یونٹ (بی ایف آئی یو) کے سربراہ مسعود بسواس کو بھی مستعفی ہونے کو کہا گیا۔بنگلہ دیش بنک کے ان تمام اعلیٰ افسران کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر تعینات کیا گیا تھا۔ مشتعل افسران نے انہیں مرکزی بینک میں ناپسندیدہ قرار دیا اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ذاکر حسین چودھری کو بینک کا ذمہ دار افسر نامزد کر دیا ۔
ڈپٹی گورنر قاضی سید الرحمان نے کہا کہ بینک کے مشتعل افسران اور اہلکاروں نے ایک خالی کاغذ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا، کسی قانون کے مطابق ڈپٹی گورنر سے اس طرح استعفا نہیں لیا جا سکتا، مجھے حکومت نےملک کے مرکزی بینک کا ڈپٹی گورنر تعینات کیا تھا اور وہی مجھے ہٹا سکتی ہے،قانون کے مطابق بینک کے افسران مجھے استعفا دینے پر مجبور نہیں کر سکتے ۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے گورنر عبدالرئوف تعلق دار، شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بینک واپس نہیں آئے ۔رپورٹ کے مطابق بینک کے افسران نے شیخ حسینہ واجد کے حامی سینئر افسران کو سابق آمر کے حامی اور دوست قرار دیتے ہوئے ان سے زبردستی استعفے لے لئے ۔ جن افسران سے زبردستی استعفے لئے گئے وہ بینک سے واپس چلے گئے جبکہ بی ایف آئی یو کے سربراہ مسعود بسواس بھی دفتر سے چلے گئے۔