بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کی مہم کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے، بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے شرح اموات میں کمی آئے گی،معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا سیمینار سے خطاب

45

اسلام آباد۔18جنوری (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کی مہم کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے، بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے شرح اموات میں کمی آئے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن پاک میں بچوں کو دو سے اڑھائی سال تک ماں کا دودھ پلانے کی تاکید کی گئی ہے، سائنسی لحاظ سے بچوں کی نشوونما کا بہترین دور ہے، ملک میں 48 فیصد بچوں کو ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے، یہ شرح پہلے 38 فیصد تھی۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ زبچہ و بچہ میں غذائی قلت ہے، بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں کمی آئے گی، ماں کا دودھ نہ پینے والے بچوں میں نمونیا سے اموات کا خطرہ 15 فیصد زیادہ جبکہ ہیضہ سے 11 گنا زیادہ ہوتا ہے، بچوں کو ماں کا دودھ پلا کر 8 لاکھ اموات روکی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے قوانین سازی بھی اہمیت کی حامل ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت نوشین حامد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بچے کو ماں کا دودھ پلانے کے اثرات سے متعلق شرکا کو آگاہ کیا اور زچہ و بچہ کی صحت کے حوالہ سے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئےا قدامات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے بل جلد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گا، تمام صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس حوالہ سے بل پیش کیا جائے گا۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشر نے کہا کہ 2018 کے مقابلہ میں 2020 میں بچوں میں غذائی قلت کے رجحان میں کمی آئی ہے، وزیراعظم کے وژن کے مطابق احساس نشوونما پروگرام شروع کیا گیا ہے، اس پروگرام کے تحت 13 اضلاع میں احساس نشوونما مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ یونیسف کی کنٹری ری پریزنٹیٹو عائدہ گرما نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت بچوں میں غذائی قلت اور ماں کا دودھ پلانے کے حوالہ سے قابل تعریف اقدامات کر رہی ہے، بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے، ڈبے کا ڈودھ ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کے حوالہ سے آگاہی اور قانون سازی کی ضرورت ہے، یونیسف پاکستان کو اس حوالہ سے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔