بچوں کی شادی کو محض مذہبی دائرہ کار کے تحت دیکھنے کی بجائے انتظامی اور سماجی معاملہ کے طور پر دیکھا جانا زیادہ مناسب ہو گا، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز

105
بچوں کی شادی کو محض مذہبی دائرہ کار کے تحت دیکھنے کی بجائے انتظامی اور سماجی معاملہ کے طور پر دیکھا جانا زیادہ مناسب ہو گا، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز

اسلام آباد۔12اکتوبر (اے پی پی):اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ بچوں کی شادی کو محض مذہبی دائرہ کار کے تحت دیکھنے کی بجائے انتظامی اور سماجی معاملہ کے طور پر دیکھا جانا زیادہ مناسب ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں کم عمری کی شادی کے خاتمہ کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس کے دوسرے دن کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام قومی کمیشن برائے وقار نسواں (این سی ایس ڈبلیو)نے اپنے ڈویلپمنٹ پارٹنرز یونیسف، یو این ایف پی اے، یو این ویمن، ایف سی ڈی او اور یوکےایڈ کے اشتراک سے کیا تھا۔

کانفرنس 11 اکتوبر، انٹرنیشنل گرل چائلڈ ڈے کی حوالے سے منعقد کی گئی تھی۔ دوسرے دن کا ایجنڈا صوبائی سٹیک ہولڈرز کی تجاویز اور ان پٹس کا جائزہ لینے کے بعد کم عمری کی شادی کے خاتمے پر قومی فریم ورک مرتب کرنا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے افتتاحی سیشن کے عنوان "کم عمری کی شادی سے متعلق اسلامی فقہ پر بحث ” کے دوران  اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے معاملات پر اجتماعی دانش کو ہمیشہ ایک اہم مقام حاصل ہوتا ہے جو قانون سازی کے لئے حتمی اتفاق رائے حاصل کرنے پر منتج ہوسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی آئی آئی نے نکاح نامہ میں ضروری ترامیم لانے کے لئے پہلے ہی سفارشات دے رکھی ہیں، ساتھ ہی نکاح رجسٹرارز کو مناسب تربیت کے ساتھ بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ نکاح کے قانونی طریقہ کار میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ پینل کے دیگر ممتاز شرکاء  نے تعمیری حل تلاش کرنے اور کم عمری کی شادی پر دوسرے اسلامی ممالک سے قبول شدہ نظیر اپنانے کے لئے تمام متعلقہ فورم پر بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔ دوسرے سیشن میں کم عمری کی شادی سے متعلق صوبائی اور وفاقی سطح پرقانون سازی کا جائزہ لینے کے لئے پاکستان بھر میں بچوں کے حقوق سے متعلق کام کرنے والے محکموں کے نمائندوں نے اپنے اپنے علاقوں  میں بچوں کی شادی سے متعلق قانون سازی کی حیثیت سے حاضرین کو آگاہ کیا۔

انہوں نے مشترکہ طور پردعا زہرا کیس میں سامنے آنے والے قانونی مضمرات سے بچنے کے لئے پاکستان کے تمام صوبوں  میں یکساں  قانون سازی کرنے پر زور دیا۔ سیشن کے اختتام پر ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان کی وزیر دلشاد بانو نے اس مسئلہ پر علماء کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں ذہن اور نقطہ نظر کو تبدیل کرنے میں ان کا بہت زیادہ بااثر کردار ہے۔

انہوں نے کم عمر لڑکیوں میں شادی سے صحت پر پڑنے والے نتائج پر دیہی علاقے میں والدین کو احساس دلانے اور کمیونٹی کی سطح پر آگاہی سیشن رکھنے کا مطالبہ کیا۔ وفاقی سیکرٹری انسانی حقوق اللہ ڈنو خواجہ نے کہا کہ بچوں کی شادی کو صرف صحت اور حیاتیاتی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ خاندان کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے نوجوان لڑکی کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کرنا چاہئے۔

سیشن میں  کم عمری کی شادی کو ختم کرنے کے لئے تمام صوبوں میں چیلنجز، مواقع اور حکمت عملی کے بارے میں مجوزہ فریم ورک کے ساتھ آنے کے لئے صوبائی گروپوں میں گروپ ڈسکشن کی گئی۔ ہر گروپ سے اس بات پر زور دیا گیا کہ تعلیم، کمیونٹی کی شرکت ، آگاہی اور تعمیری پالیسی فریم ورک کا ہونا بہت ضروری تھا۔ چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار نے کانفرنس کے اختتام پر شرکاء  اور پارٹنرز کا شکریہ ادا کیا ۔