بھارتی حکومت نے کشمیر کے متعلق اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں تیز کردیں، بھارت کے غیر قانونی اقدامات کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے، رپورٹ

65

اسلام آباد۔26اکتوبر (اے پی پی):بھارتی حکومت نے نریندر مودی کی فاشسٹ قیادت میں ”ہندوتوا “نظریے کی پیروی کرتے ہوئے کشمیر کے متعلق اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں تیز کردی ہیں، بھارت کے ان غیر قانونی اقدامات کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔

منگل کو ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے ماضی میں بھی ایسے اقدامات کئے تاہم موجودہ منصوبہ ماضی سے بالکل مختلف اور جارحانہ ہے، وادی کشمیر کی 97 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، ان اقدامات کا مقصد کشمیر کے مسلم تشخص کو خراب کرنا ہے تاکہ بھارت ممکنہ رائے شماری پر اثر انداز ہوسکے، اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو نقصان پہنچایا جائے اور کشمیری عوام کو تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرکے ان کی حق خود ارادیت کی آواز کو دبایا جائے۔

بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ماضی میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کئی بار کوششیں کی ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت ریاست جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی جس میں 72.4 فیصد مسلم آبادی تھی جو2011 کی مردم شماری کے مطابق بتدریج تقریباً 4.13 فیصد کم ہو کر 68.31 رہ گئی ہے۔

قیام پاکستان کے وقت ہندو جنونیوں کے ہاتھوں جموں میں اگست سے نومبر1947 کے دوران تقریباً پانچ لاکھ مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دو لاکھ سے زیادہ مسلمان لاپتہ ہوئے۔ اس طرح یہ جموں کی آبادی کو تبدیل کرنے کی پہلی کوشش تھی۔ اس نسل کشی اور مسلمانوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی سے قبل جموں کے خطے میں مسلمانوں کی آبادی61 فیصد تھی جو بعد ازاں کم ہوکر30 فیصد رہ گئی اور یوں مسلمان اس خطے میں اقلیت بن گئے۔2001 اور 2011 کے دوران لداخ میں ہندو آبادی میں سو فیصداضافہ ہوا۔

اس طرح لداخ کی ہندو آبادی 6.2 فیصد سے بڑھ کر 12.1 فیصد ہوگئی۔ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد مقبوضہ علاقہ میں بہت سے نئے قوانین متعارف کرائے اور بعض میں ترامیم کیں جس کا مقصد غیر کشمیریوں خاص طور تر ہندووں کو ڈومیسائل کے اجراءمیں سہولت فراہم کرنا ہے، بھارتی حکومت اب تک لاکھوں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کرچکی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارت کس طرح کشمیر کی آبادی کا تناسب تیزی سے تبدیل کررہا ہے۔

بھارت کے نئے غیرقانونی اقدامات کے تحت جموں و کشمیر سول سروسز ایکٹ ان تمام لوگوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے جو مقبوضہ علاقہ میں 15 سال سے مقیم رہے ہوں یا انہوں نے وہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی ہو۔ ڈومیسائل رکھنے والوں کو مقبوضہ کشمیر میں ملازمت کا حق حاصل ہے، اس کے علاوہ وہ جائیداد بھی خرید سکتے ہیں۔ 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کے بعد بھارتی حکومت نے اکتوبر 2020 میں نیا قانون متعارف کرایا جس کے تحت بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے کے قابل بنادیا گیا ہے۔

بھارت کے نئے قوانین حکومت کی طرف سے صنعتی یا تجارتی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی زمینوں کو کسی بھی بھارتی شہری کو تصرف میں لانے یا فروخت کرنے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج پہلے ہی ہزاروں ہیکٹر اراضی پر زبردستی قابض ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز نیشنل کانفرنس نے اس ایکٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ ترامیم سول اتھارٹی کو نقصان پہنچائیں گی اور پورے خطے کو ایک فوجی چھاونی میں تبدیل کردیں گی۔

نیشنل کانفرنس کا کہنا کہ بھارتی فوج اور دیگر سیکورٹی ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں ہیکٹر اراضی پر پہلے ہی قابض ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد زمینوں پر قبضہ کرنا ہے، گزشتہ سال بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں 37 نئی انڈسٹریل اسٹیٹس بنانے کے نام پر 9600 کنال سے زیادہ اراضی پر قبضہ کرلیا۔

بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریہ پر عمل پیرا ہے اور وہ مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں سمیت تمام اقلیتوں کو دبا کر انہیں ہندﺅں کا دست نگر بنانا چاہتی ہے۔