بھارتی قبضہ کے خلاف کنٹرول لائن کے دونوں جانب، پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری 27 اکتوبر کو یوم سیاہ منائیں گے

103
بھارتی قبضہ کے خلاف کنٹرول لائن کے دونوں جانب، پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری 27 اکتوبر کو یوم سیاہ منائیں گے

اسلام آباد۔26اکتوبر (اے پی پی):بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر پر بھارتی قبضہ کے خلاف (کل) جمعہ کو کنٹرول لائن کے دونوں جانب، پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری یوم سیاہ منائیں گے۔ 27 اکتوبر 1947ءکو کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم ہوا اس روز بھارتی مسلح افواج تمام بین الاقوامی اصول و ضوابط اور قوانین کو اپنے پائوں تلے روندتے ہوئے وادی کشمیر میں داخل ہوئیں۔ یوم سیاہ کے موقع پر پاکستان، آزاد کشمیر اور مختلف ممالک میں رہنے والے کشمیری اور پاکستانی تارکین وطن شہداءکشمیر کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔

یوم سیاہ کے موقع پر جلسے جلوسوں نکالیں گے جبکہ پاکستانی سفارتخانوں اور دیگر سفارتی مشنزکے زیر اہتمام مختلف تقاریب اور سیمینارز کا اہتمام کیا جائے گا جن میں کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداردوں، کشمیریوں کی حق خودارادیت کے لئے بے مثال قربانیوں کو اجاگر اور بھارت کے ہاتھوں مقبوضہ علاقہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔

پاکستان نے حق خود ارادیت کے لئے برسر جدوجہد کشمیری عوام کی ہمیشہ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر بھرپورطریقے سے اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں طویل عرصے سے تصفیہ طلب ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بات زور دیکر کہی کہ پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن اور نتیجہ خیز تعلقات کا خواہاں ہے یہ کہ مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کلید ہے۔

بھارت کے ہندو انتہا پسند لیڈروں نے کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ سے ملکر ایک منصوبہ بند سازش کے ذریعے 27 اکتوبر 1947ءکو سرینگر کے ہوائی اڈے پر اپنی فوج اتاردیں اور کشمیر کے ایک بڑے حصہ پر ناجائز فوجی تسلط قائم کیا، کشمیر پر بھارت کی فوج کشی سے قبل مقامی لوگوں اور مجاہدین آزادی نے آزادکشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کی وفا دار فوج کو نکال باہر کردیا تھا جس کے باعث ہری سنگھ نے سرینگر سے فرار ہوکر جموں میں پناہ لے لی اور بھارت کے ساتھ ایک نام نہاد الحاق کا سمجھوتہ کرلیا جس کے فوری بعد بھارت نے بڑے پیمانے پر اپنی افواج کو کشمیر میں داخل کرلیا۔

مہاراجہ ہری سنگھ کی بھارت سے دستاویز الحاق قانونی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، جس وقت اس نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے وہ کشمیر کی حکمرانی کھو چکا تھا، مہاراجہ ہری سنگھ کے راتوں رات سرینگر سے فرار سے قبل 24 اکتوبر 1947ءکو مرحوم سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں آزاد کشمیر حکومت قائم کی گئی جس کے بعد مجاہدین اور قبائلی رضاکاروں نے سرینگر کی جانب پیش قدمی تیز کر دی، اس صورتحال کے پیش نظر مہاراجہ ہری سنگھ نے سرینگر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور 26 اکتوبر 1947ءکو بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا۔ اس طرح بھارت کو 27 اکتوبر 1947ءکو ایک موقع مل گیا۔

بھارت نے ایک مختصر مدت میں کشمیر میں لاکھوں فوجی اہلکاروں کو تعینات کردیا اور اس وقت مقبوضہ علاقہ میں 9 لاکھ بھارتی فوجی اور دیگر نیم فوجی اہلکار تعینات ہیں۔
مسلمانوں کی غالب اکثریت اور جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر 1947ءمیں کشمیر کاپاکستان کے ساتھ الحاق فطری بات تھی لیکن کشمیر کی مسلم اکثریت کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک خفیہ گٹھ جوڑ کے ذریعے بھارت کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچایا۔

تقسیم برصغیر سے قبل کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس 19 جولائی 1947ءکو سرینگر میں اپنے اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کر چکی تھی۔ مسلم کانفرنس کی یہ متفقہ قرارداد لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی آواز تھی کیونکہ 1946ءکے ریاست گیر اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کیلئے مختص کردہ 21 نشستوں میں سے 16 پر مسلم کانفرنس کے امیداواروں نے کامیابی حاصل کر لی تھی۔
بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے دوران گزشتہ تین دہائیوں میں مقبوضہ علاقےمیں ایک لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں جبکہ آزادی کےلئے 1947ءسے اب تک پانچ لاکھ لوگ جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔کشمیر میں 1990ءکے بعد ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیاگیا جن میں سے ایک بڑی تعداد اس وقت بھی کالے قوانین کے تحت جیلوں میں قید ہیں۔کشمیر میں9لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں معمول بن چکی ہیں، خواتین کی آبروریزی، حراستی گمشدگی، غیر قانونی گرفتاریاں اور کریک ڈائون روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ 7 ہزار کشمیری دوران حراست شہید اور 10 ہزار سے زیادہ خواتین کی آبروریزی کی گئی۔

بھارتی قابض فوج خواتین پر مظالم کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ بھارتی افواج کشمیر میں اب تک میں ایک لاکھ رہائشی مکانوں اور دیگرتعمیرات کو نذر آتش کرچکے ہیں۔بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ‘ ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ‘ پبلک سیفٹی ایکٹ اور کئی دیگر کالے قوانین نافذ ہیں جن کا مقصد آزادی کے لئے جاری جدوجہد کو طاقت کے بل بوتے پر دبانا ہے۔

کشمیر میں نافذ کالے قوانین کے باعث انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہورہی ہیں۔ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو دو سال تک کسی الزام کے بغیر بھی زیر حراست رکھا جاسکتا ہے، زیادہ تر آزادی پسندوں کو اسی قانون کی آڑ میں جیلوں میں بند رکھا جارہاہے۔
بھارتی حکومت نے 1990ءمیں کشمیر کو شورش زدہ علاقہ قراردے کر آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت فوج کو بے لگام اختیارات دے دیئے جن کے تحت وہ کسی بھی مکان کو تباہ اور کسی بھی شخص کو محض شک کی بناد پرگولی مار سکتے ہیں۔ اس کالے قانون کے تحت فوجیوں کو وارنٹ کے بغیر گرفتاریوں کی بھی اجازت حاصل ہے جو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی ایک بڑی وجہ ہے، علاقے میں ان تمام قوانین کا اطلاق جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ برصغیرکی تقسیم کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور ہندو آبادی والے علاقوں کو بھارت میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا۔

برطانوی حکومت اور بھارت کے رہنمائوں نے ایک سازش کے ذریعے اصولوں اور ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے مسلم اکثریت رکھنے والے پنجاب کے ضلع گورداسپور کو بھارت میں شامل کرکے بھارت کو ریاست جموں و کشمیر پر فوج کشی کیلئے زمینی راستہ فراہم کیا جس سے بھارت کو کشمیر پرقبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔
نریندر مودی کی ہندو انتہا پسند بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کے بعد بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا

حریت کانفرنس کی پوری قیادت اور آزادی پسند کارکنوں کو فرضی مقدمات میں جیلوں، عقوبت خانوں اور گھروں میں نظربند کیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کے5 اگست 2019 کے غیر آئینی اقدام کا مقصد بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنا اور بھارتی باشندوں کو آباد کرنے کی گھناونی سازش کا حصہ ہے۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیری عوام اپنی مبنی بر حق جدوجہد جاری رکھیں گے۔بھارت نے1947 میں جموں وکشمیر پر ناجائز فوجی تسلط قائم کرکے کشمیری عوام کو محکوم بنایا جبکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا جائز حق خودارادیت دینے سے گریزاں ہے ۔

بھارتی ظلم و ستم کے باوجودکشمیری عوام نے بھارت کے ناجائز فوجی تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا اس لئے 27 اکتوبر کو کشمیری عوام ایک بار پھر یوم سیاہ منائیں گے، تاریخی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کے خود فیصلے کا اختیار ملنا چاہئے۔