اسلام آباد۔3دسمبر (اے پی پی):پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت اسلحے کی بے تحاشا خریداری اور دفاعی صلاحیتوں میں اضافے سے خطے اور عالمی امن واستحکام کو خطرات سے دو چار کر رہا ہے،عالمی برادری کو بھارتی اقدامات کا نوٹس لینا چاہیئے۔ترجمان دفتر خارجہ ذاہد حفیظ نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت اپنی ضروریات سے بڑھ کر اسلحے کی بے تحاشا خریداری اور دفاعی صلاحیتوں میں اضافے سے خطے اور عالمی سٹریٹجک توازن کو بگاڑ رہا ہے۔عالمی برادری کو بھارتی جارحانہ اقدامات کا نوٹس لینا چاہیے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات علاقائی امن و استحکام میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے ترجمان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کے حقوق اور آزادیوں کو غصب کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت پر دباؤ ڈالیں۔ترجمان نے کہا کہ عالمی برادری کو کشمیری عوام کے خلاف سنگین جرائم کے لئے بھارت سے باز پرس کرنا چاہیئے۔انہوں نے عالمی برادری خصوصاً اقوامتحدہ پر زور دیا کہ وہ پاکستانی ڈوزیئر پر کارروائی کرے جس میں بھارتی سرپرستی میں ریاستی دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔ترجمان نے تہران میں ایرانی سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تمام فریقوں سے پرزور زور دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور خطے میں کشیدگی کے بڑھانے سے گریز کریں۔ترجمان نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے قواعد اور طریقہ کار سے متعلق حالیہ معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ تمام فریقین اس کی پاسداری کرینگے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نئی بستیوں کی تعمیر سے متعلق اسرائیلی منصوبوں پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا۔ترجمان کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلہ فلسطین کا 1967 سے پہلے کی سرحدوں اور القدس الشریف کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونے کی حیثیت سے اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل ہونا ضروری ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعاون پر مبنی تعلقات قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔