اسلام آباد۔12نومبر (اے پی پی):بھارتی تجزیہ کارنے کہا ہے کہ بھارت تاریخ کے غلط رخ پر کھڑا ہے، افغانستان سے متعلق نئی دہلی علاقائی سلامتی، مذاکرات کے منفی اثرات پڑے ہیں۔سٹریٹجک امور کے ایک بھارتی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ افغانستان کے قابل اعتماد شراکتدار کے طور پر نظر آنے کیلئے بھارت کو پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہئیں۔
اسی طرح ایک سابق بھارتی فوجی افسر پراون سوانی نے روس کے خبر رساں ادارے سپوتنک نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دہلی علاقائی سلامتی مذاکرات کے بڑے اثرات میں سے ایک منفی ہونا ہے۔ اس کی وجہ سادہ ہے کیونکہ دہلی اعلامیہ کے چند گھنٹوں بعد روس نے اپنا بیان جاری کیا جبکہ دہلی اعلامہ یا مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شرکاء 2022 ء میں آئندہ اجلاس منعقد کریں گے تاہم روس کے بیان میں اس نقطہ کو نظرانداز کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح روس کے نمائندوں نے ایک بیان بھی جاری کیا کہ کثیر الجہتی مذاکرات سے صورتحال کو پیچیدہ نہیں ہونا چاہئے۔ بھارت اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا اختلاف واضح تھا۔ انہوں نے دہلی مذاکرات کو بھارتی عوام کیلئے بیانیہ سے متعلق بندوبست کی کوشش قرار دیا اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ پیغام دینا تھا کہ بھارت ابھی افغانستان میں اہم شراکتدار ہے۔
پاکستان کی میزبانی میں 11 نومبر کو ہونے والے ٹرائیکا پلس اور اس میں تین اہم جغرافیائی تذویراتی شراکت داروں امریکہ، روس اور چین کی شرکت کے حوالے سے تجزیہ کار نے کہا کہ ان میں سے صرف روس بھارتی کانفرنس میں شریک تھا جس نے اپنا الگ موقف دینے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے کہاکہ یہ صرف افغانستان سے متعلق نہیں ہے جہاں بھی پاک بھارت تعلقات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے یہ تاریخ میں وقت پر سمجھ بوجھ سے متعلق ہے۔ پاکستانی چین پاکستان راہداری (سی پیک) کی اہمیت کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے نہ صرف سیکورٹی کے تناظر میں بلکہ مجموعی روابط کی صورت میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ پراون سوانی نے امریکہ بھارت تعلقات کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت تاریخ کے غلط رخ پر کھڑا ہے، امریکہ اہم ملک ہے ہمیں امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ امن اور خوشحالی ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر آتی ہے اگر ہمسائے ہمارے ساتھ پرامن نہیں ہیں تو امریکہ ہمارے لئے کچھ نہیں کرسکتا جبکہ بھارت نے اپنے تمام باہمی تعلقات سرحد پر صورتحال سے منسلک کر رکھے ہیں اور یہ لداخ سرحد پر اپریل 2020 سے پہلے کی صورتحال کی بحالی چاہتا ہے، میں ضمانت دیتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ چین نے جس بھارتی حدود پر قبضہ کیا ہے وہ اب ہمیں واپس کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کا افغانستان کے ساتھ واحد زمینی راستہ پاکستان سے گزرتا ہے تاہم اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں تجزیہ کار نے تجویز دی کہ بھارت کو چین کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں اور وہان کی طرز پر باضابطہ سربراہ اجلاس کی طرح چینی قیادت کے ساتھ باضابطہ اجلاس منعقد کرنا چاہئے۔