اسلام آباد۔27مئی (اے پی پی):چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار خان آفریدی نے کہا ہے کہ بھارتی قابض حکومت جموں و کشمیر میں اسرائیلی ماڈل اپنا رہی ہے اور دنیا کو ایک اور فلسطین کو کرہ ارض سے ہٹانے کی کوششوں سے روکنے کے لئے اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔
جمعرات کو کشمیر کمیٹی اور مسلم انسٹی ٹیوٹ کے مشترکہ طور پر منعقدہ "فلسطین اور کشمیر تنازعہ پر انصاف کے تقاضے” کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے شہریار آفریدی نے کہا کہ 5 اکتوبر 2019 سے قبل بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر میں تعینات اپنے پولیس اور سول بیوروکریسی کے افسران کو اسرائیلی ماڈل سے سیکھنے اور تربیت لینے کے لئے اسرائیل بھیجا، جس کو واپسی پر مقبوضہ جموں وکشمیر میں نقل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ان افسران میں بدنام زمانہ پولیس افسر امتیاز حسین بھی شامل ہے جس پر 200 کشمیری مسلمانوں کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ امتیاز حسین کو 5 اگست 2019 سے پہلے اسرائیلی سیکیورٹی کے نظام کو سمجھنے کے لئے اسرائیل بھیجا گیا تھا اور واپسی پر جموں و کشمیر میں مظاہروں کو دبانے کے لئے سری نگر میں سیکیورٹی انچارج کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے جموں و کشمیر سے مقامی آبادی کے خاتمے کےلئے اسرائیلی حکومت سے سیکھا اور پھر اسی ماڈل کی کشمیر میں نقل کی۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسرائیلی ماڈل پر مبنی نو آبادیاتی منصوبے پر عمل درآمد اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ 40 لاکھ نئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے جن میں سے 5 لاکھ ہندوستان کے اُن رہائشیوں کو جاری کیے گئے جنہوں نے کبھی زندگی میں کشمیر دیکھا ہی نہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ غیر مقامی ہندوستانیوں کو سیاحت کے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں، سرزمین ہندوستان سے آنے والے رہائشیوں کو جنگل بھی ٹھیکے پر دیئے جا رہے ہیں جبکہ کشمیریوں کو انکار کیا جارہا ہے۔ مقامی لوگوں کو گلمرگ کے ہوٹلوں کے ٹھیکے دینے کے بجائے بھارت اُنہیں زبردستی ہندوستانیوں کو ٹھیکے پر دے رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان اقتصادی طور پر کشمیریوں کا گلا گھونٹ رہا ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کو بے دخل کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر پر فوجی قبضے کو مستحکم کرنے کی کوشش میں عسکریت پسندی کے عمل کو ایک نئی انتہا دی جارہی ہے اور سڑکوں اور گلیوں کے اطراف سیمنٹ سے نئے بنکر تعمیر کیے جارہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بعد ان عسکری بنکروں میں 400 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے اور بھارتی فوجی جوان بہانے بہانے سے کشمیری عوام کو مشتعل کرنے کے لئے سڑکوں پر ہراساں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے کرونا لاک ڈاؤن کی آڑ میں فوجی مارشل لاء نافذ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے بلند ہونے والی آوازوں کو خاموش کررہی ہے اور فاشسٹ طرزِ عمل کے تحت کشمیریوں کو ان کے بنیادی روزگار کے مواقع سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی حکام نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں متعدد مسلم سرکاری عہدیداروں کو غیر قانونی اور غیر منطقی طور پر معطل کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکام نے سرکاری ملازمین کو سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکنے کےلئے ایک خصوصی ٹاسک فورس (STF) تشکیل دی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں متنازعہ مودی حکومت نے برطرفی کے لئے ایک ہزار مسلم ملازمین کی ایک فہرست مکمل کرلی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ 5 اگست 2019 سے مقبوضہ کشمیر میں 500 سے زائد سرکاری ملازمین کو ان کی ملازمت سے فارغ کر دیا جائے گا۔
دیگر ممتاز مقررین میں آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان، صدر مسلم انسٹی ٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی، فلسطین کے سفیر احمد ربیعی اور دیگر سفارتکار شامل تھے۔ مقررین نے کہا کشمیر اور فلسطین عصری دنیا میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کی مثالیں پیش کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستانی افواج اور مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی فوجیں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کررہی ہیں۔