بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کا مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام اور ان کی روہنگیا مسلمانوں کی طرح بھارت سے بے دخلی کا مطالبہ، رپورٹ

58

اسلام آباد۔23دسمبر (اے پی پی):بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے ملک میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام اور ان کی روہنگیا مسلمانوں کی طرح بھارت سے بے دخلی کا مطالبہ کیا ہے، ہندو انتہاپسندوں نے یہ مطالبہ بھارت کے شمالی شہر ہریدوار میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں کی موجودگی میں منعقدہ تین روزہ ”ہندوتوا“ اجلاس میں کیا۔

جمعرات کو بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق نریندر مودی کی حکومت سے تعلق رکھنے والے کئی رہنمائوں نے بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر ملک کے 200 ملین مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین روزہ کانفرنس میں نفرت انگیز تقاریرکی گئیں اور یتی نرسنگھانند سمیت ہندو انتہا پسند لیڈروں نے اقلیتوں کو مارنے اور ان کے مذہبی مقامات پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دیں۔ یتی نرسنگھانند نے کہا کہ صرف معاشی بائیکاٹ کام نہیں کرے گا بلکہ ہندو گروپوں کو خود کو تیارکرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ تلواریں صرف سٹیج پر اچھی لگتی ہیں، مسلمانوں کے خلاف یہ جنگ وہ جیتیں گے جو بہتر ہتھیاروں کے ساتھ ہوں گے۔ بھارتی نیوز ویب سائٹ ”دی وائر“ کے مطابق انتہا پسند تنظیم ”ہندو مہاسبھا“ کی جنرل سیکرٹری سادھوی اناپورنا نے مسلمانوں کے اجتماعی قتل کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا کہ اسلحے کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں، اگر آپ ان کی آبادی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مار ڈالو، مارنے اور جیل جانے کے لیے تیار رہو، اگر ہم میں سے 100 بھی ان میں سے 20 لاکھ کو مارنے کے لئے تیار ہوجائیں تو ہم کامیاب ہوجائیں گے۔

”دی وائر“ کے مطابق اس اجلاس میں غیر معمولی طور پر کافی نفرت انگیز تقاریر کی گئیں جبکہ اس میں تشدد کے لیے متحرک اور مسلم مخالف جذبات دیکھے گئے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بھارت میں بی جے پی ایسے عناصر کی سیاسی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی کے سیاستدان اشونی اپادھیائے اور اڈیتا تیاگی نے بھی اجلاس میں شرکت کی جس نے اس تقریب کی حکمراں جماعت کی طرف سے سیاسی حوصلہ افزائی کی۔

مقررین نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف 2017 کے بڑے پیمانے پر مظالم اور میانمار سے ان کے اخراج کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے ایسی ہی پالیسی اپنانے پر زور دیا۔ ایک اور انتہا پسند تنظیم ”ہندو رکھشا سینا“ کے سربراہ سوامی پربودھانند گری نے کہا کہ میانمار کی طرح بھارت کی پولیس، سیاست دانوں، فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھانا ہوں گے اور ہمیں مسلمانوں کی نسل کشی کرنی چاہئے۔ ہندو انتہا پسند لیڈردھرم داس مہاراج نے کہا کہ اگر میں پارلیمنٹ میں اس وقت موجود ہوتا جب سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ قومی وسائل پر اقلیتوں کا پہلا حق ہے تو میں ناتھورام گوڈسے کی پیروی کرتے ہوئے ان کے سینے میں ریوالور سے چھ گولی مارتا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ گوڈسے نے 30 جنوری 1948 کو گاندھی کو قتل کردیا تھا اور بھارت کے ہندوتوا گروپوں نے اس کی تعریف کی تھی۔ دھرم داس مہاراج کا یہ تبصرہ سنگھ کی 2006 کی پارلیمنٹ کی تقریر کے حوالے سے کیا گیا تھا جس میں اس وقت کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق بھارتی اقلیتوں کا ہونا چاہیے۔ بھارت کے ہندو انتہا پسندوں کا یہ متنازعہ اجلاس اس وقت ہوا ہے جب بھارت کی مودی حکومت اقلیتوں پر حملوں، ہندو سخت گیر افراد کے ذریعہ مذہب کے غلط استعمال اور ملک میں اختلاف رائے کے خلاف عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

بھارت میں 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندو جنونی اب تک درجنوں مسلمانوں اور دلتوں کو گائے کی نقل و حمل یا گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں قتل کرچکے ہیں۔ مسلمانوں پر کوویڈ 19 پھیلانے کا بھی الزام لگایا گیا جبکہ حالیہ مہینوں میں شمالی بھارت میں جمعہ کی نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔