اسلام آباد۔4اگست (اے پی پی): بھارت نےغیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر میں آبادیاتی دہشت گردی کی رفتار تیز کردی ہے اورکشمیریوں کے حق خودارادیت کے مطالبہ پر سزا کے طور پر رہائشی مکانات کو سربمہر کرنا شروع کر دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکام نے گزشتہ دو ماہ کے دوران بہت سے مکانات کواس آڑ میں سیل کر دیا کہ یہ آزادی پسندوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ بھارت کی یہ کارروائی اسرائیل کی طرزپر کی جارہی ہے جس نے 1980 کی دہائی کے آخر میں فلسطینی مزاحمتی تحریک کو کچلنے کے لئے مکانات سیل اور مسمار کر دیئے تھے۔
نریندر مودی کی حکومت وادی کشمیر کا آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔وہاں تقریباً 97 فیصد مسلم آبادی ہے۔ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں طویل مدتی مقاصد میں ریاست کے مسلم تشخص کو ختم کرنا،رائے شماری(اگر کسی بھی وقت منعقد ہو) کے نتائج بھارت کے حق میں کرانا شامل ہے جبکہ اس کے قلیل مدتی مقاصد میں معیشت کو نقصان پہنچانا،کشمیری عوام کو تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنا اور آزادی کی آواز کو کچلنا ہے ،بھارتی حکومت نے ماضی میں کشمیر کی آبادیاتی حیثیت تبدیل کرنے کی کئی بار کوششیں کیں اور غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی مسلم آبادی کو بتدریج کم کیا۔
ریاست جموں و کشمیر تقسیم کے وقت مسلم اکثریتی ریاست تھی جب 72.4 فیصد مسلم آبادی تھی جو 2011 کی مردم شماری کے مطابق بتدریج تقریباً 4.13 فیصد کم ہو کر 68.31 رہ گئی ہے۔ اس وقت بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی آبادی 12.541 ملین ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جموں میں ہندو جنونیوں کے ہاتھوں اگست سے نومبر 1947 تک تقریباً 500,000 مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور 200,000 سے زیادہ لاپتہ ہوئے۔ریاست کے تین خطوں میں سے ایک جموں کی آبادی کو تبدیل کرنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ اس نسل کشی اور مسلمانوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی کی وجہ سے مسلمان جو اس قتل عام سے قبل 61 فیصد کے قریب تھے، اس خطے میں صرف 30 فیصد اقلیت میں رہ گئے۔
جموں کی آبادی کی تبدیلی کے لئے ایک اور حملہ 1976 میں اس وقت کیا گیا جب زرعی اصلاحات ایکٹ 1976 نافذ کیا گیا جس کے تحت زمین کاشت کرنے والوں کو مالکانہ حقوق فراہم کیے گئے اور اس کے نتیجے میں ریکارڈ میں خلل ڈالا گیا اور ہزاروں غیر کشمیریوں کو کاشتکار دکھایا گیا۔
آبادی پر ایک اور حملہ 2001-2011 کے دوران کیا گیا جہاں بھارت کے غیر قانونی زیرتسلط جموں وکشمیر کے ایک اور علاقے لداخ میں ہندو آبادی میں 100 فیصد کا ناقابل تصور اضافہ دیکھا گیا اور ہندو آبادی 6.2 فیصد سے بڑھ کر 12.1 فیصد ہو گئی۔5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد بھارتی حکومت نے بہت سے نئے قوانین متعارف کرائے اور کئی دیگر میں ترامیم کیں تاکہ غیر کشمیریوں، زیادہ تر ہندوؤں کو ڈومیسائل کے حقوق کے اجراء کی سہولت فراہم کی جا سکے اب تک اس طرح کے لاکھوں سرٹیفکیٹ جاری کیے جا چکے ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارت کس طرح کشمیر کی آبادی کا تناسب تیزی سے تبدیل کر رہا ہے۔
بھارتی حکومت نے اکتوبر 2020 میں نیا قانون یونین ٹیریٹری آف جموں و کشمیر کی تنظیم نو (مرکزی قوانین کی موافقت) تھرڈ آرڈر 2020متعارف کرایا جس کے تحت کوئی بھی بھارتی شہری بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر میں جائیداد خریدنے کا اہل ہوگا جبکہ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا مقصد علاقے کی مسلم اکثریتی حیثیت کو کمزور کرکے زمین پر قبضہ کرنا ہے، جس کی جزوی خود مختاری اگست 2019 میں ختم کر دی گئی تھی، اور اسے نئی دہلی کے براہ راست کنٹرول میں لایا گیا تھا ،نئے قوانین حکومت کی طرف سے صنعتی یا تجارتی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی زمینوں کو کسی بھی بھارتی شہری کو اپنے تصرف میں لانے یا فروخت کرنے کی بھی اجازت دیتے ہیں اور یہ بھارتی فوج کو آپریشنل اور تربیتی مقاصد کے لیے کسی بھی علاقے کو سٹریٹیجک قرار دینے کا اختیار بھی دیتے ہیں۔
نئے قوانین زمینوں پر قبضے کی ایک شکل ہے کیونکہ بھارتی فوج پہلے ہی مقبوضہ علاقے میں ہزاروں ہیکٹر اراضی پر قابض ہے۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس نے اس ایکٹ پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ ترامیم سے سول اتھارٹی کو نقصان پہنچے گااور پورا خطہ ایک فوجی اسٹیبلشمنٹ میں بدل جائے گا ،نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ہزاروں ہیکٹر اراضی پہلے ہی فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کے قبضے میں ہے۔
زراعت کی سرگرمیوں کے لیے دستیاب کابل کاشت اور زرخیز زمینوں پر بھی فوج قابض ہوجائے گی ،بھارت اسرائیل کی طرح مختلف بہانوں سے زمین پر قبضے کی چال کرتا ہے، گزشتہ سال فاشسٹ حکومت نے بھارت کے غیر قانونی طور زیر قبضہ جموں و کشمیر میں 37 نئی انڈسٹریل اسٹیٹس بنانے کے نام پر 9600 کنال سے زیادہ اراضی ہتھیا لی تھی ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی مسلم حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس صورتحال میں اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری بیدار ہو اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے ان کی مدد کرے۔