بھارت کا جارحانہ رویہ اور ہندوتوا نظریہ کا غلبہ علاقائی امن کیلئے خطرہ ہے، افغانستان میں امن و سلامتی کیلئے تعاون پاکستان اور چین کے باہمی مفاد میں ہے، دنیا اب ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی، وزیراعظم عمران خان کا چین میں اجلاس سے خطاب

99

بیجنگ۔4فروری (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے بھارت کے جارحانہ رویے اور ہندوتوا نظریہ کے غلبہ کو علاقائی امن کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو بھارت کے غیر قانونی زیرتسلط جموں و کشمیر میں مظالم پر توجہ دینی چاہئے، افغانستان میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے تعاون پاکستان اور چین کے باہمی مفاد میں ہے، درپیش چیلنجوں کے پیش نظر دنیا اب ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

جمعہ کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق دورہ چین کے دوران وزیراعظم عمران خان نے چین کے معروف تھنک ٹینکس ، یونیورسٹیوں اور پاکستان سٹڈیز سنٹرز کے سربراہان اور نمائندوں کے ساتھ خصوصی اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے پاک۔چین تعلقات کی اہمیت اور علاقائی استحکام و خوشحالی کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے کثیر الجہتی فورمز پر پاک۔چین مشترکہ مؤقف کو اجاگر کرتے ہوئے ون چائنہ پالیسی اور بنیادی مفادات کے حامل دیگر امور پر پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔

وزیراعظم نے تنازعہ کشمیر پر چین کی غیر متزلزل حمایت پر بھی شکریہ ادا کیا۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے علاقائی استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے میں پاک۔چین تعلقات کی اہمیت پر اظہار خیال کیا۔ وزیراعظم نے چین کے ساتھ پاکستان کی سدا بہار تزویراتی شراکت داری کا اعادہ کرتے ہوئے صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ایک اہم منصوبہ کے طور پر سی پیک کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ جہاں سی پیک کا پہلا مرحلہ بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور رابطہ پر مرکوز تھا وہیں اگلے مرحلہ میں صنعت کاری، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تعاون اور زرعی شعبہ پر توجہ دی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان سرمایہ کاری کیلئے دیگر مقامات کے برابر یا ان سے بہتر مراعات کی پیشکش کر رہا ہے ۔ وزیراعظم نے زور دیا کہ بے شمار عالمی چیلنجوں کے پیش نظر دنیا کو ایک اور سرد جنگ کی ضرورت نہیں ہے، تقسیم کے نتیجہ میں مصائب میں اضافہ اور مشترکہ فوائد سےمحرومی کا خدشہ ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا یہ عزم تھا کہ بین الاقوامی سیاست میں تصادم کی بجائے تعاون ہونا چاہئے، پاکستان نے ماضی میں اس ضمن میں پل کا کردار ادا کیا اور وہ دوبارہ ایسا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ وزیراعظم نے پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے زور دیا کہ ان کی حکومت نے اس پالیسی میں اقتصادی سلامتی کو بنیادی اہمیت دی ہے، یہ وژن روابط اور ترقیاتی شراکت داری پر مبنی ہے جس کیلئے چین اور پاکستان کی شراکت داری ناگزیر ہے۔

علاقائی تناظر کو زیر بحث لاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے میں تعاون پاکستان اور چین کے باہمی مفاد میں ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ افغانوں کو اس مشکل وقت میں تنہا نہ چھوڑا جائے۔ انہوں نے امن، ترقی اور روابط کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان اور چین کی افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

وزیراعظم نے بھارت کے جارحانہ رویے اور ہندوتوا نظریہ کے غلبہ کو علاقائی امن کیلئے خطرہ اور خطہ کے دیرپا عدم استحکام کا سبب قرار دیتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے مسلسل مظالم کی طرف توجہ دلائی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی مظالم پر توجہ دے۔

وزیراعظم نے دونوں ممالک کے تھنک ٹینکس، یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے درمیان ثقافتی اور علمی روابط سمیت عوامی سطح پر رابطوں کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ وزیراعظم نے دونوں ممالک کو درپیش مشترکہ خطرات اور مواقع کو بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے مشترکہ تحقیق اور فکری مکالمہ کیلئے مزید کوششوں پر زور دیا۔

اجلاس میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین، وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین، وزیر منصوبہ بندی ترقی، اصلاحات و خصوصی اقدامات اسد عمر، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک خالد منصور، قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔