بھارت کی دہشت گردی بارے بات اپنی ریاستی دہشتگردی چھپانے کےلئے دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے، راشد سبحانی

158

اقوام متحدہ۔3جون (اے پی پی):اقوام متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام سفیر عامر خان نے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں ظالمانہ بھارتی قبضےاورکئی دہائیوں سے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑانے کوایک واضح اور نمایاں مثال کے طور پر پیش کرنے کے بعد سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے سفیروں کے درمیان لفظی تکرار شروع ہوگئی۔

اقوام متحدہ میں بھارت کی سفیر کاجل بھٹ نے سلامتی کونسل کے اعلی سطح کے اجلاس میں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے احتساب اور انصاف کو مضبوط بنانے سے متعلق بحث کے دوران پاکستانی مندوب عامر خان کے بیان پرردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دعوی کیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔ اس موقع پر اقوام متحدہ میں پاکستان مشن کے تھرڈ سیکرٹری راشد سبحانی نے جواب دینے کے اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے بھارت کے دعوے کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے اور نہ کبھی تھا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں جموں و کشمیر متنازع علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کے تمام نقشوں میں متنازع علاقے کے طور پر موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں جن میں قرارداد 47 (1948) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کےبھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقہ سے کیا جانا چاہئے۔

پاکستانی مندوب راشد سبحانی نے کہا کہ بھارت نے اس فیصلے کو قبول کیا ہے اور وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے مطابق اس کی تعمیل کرنے کا پابند ہے۔ بھارت کا 7 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اس فیصلے کی تعمیل سے انکار سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح اور مستقل خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف ایک قابض ہی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کی مخالفت کرے گا جس میں جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا حق خودارادیت کا حق دینے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔

ریاست جموں و کشمیر اب بھی نوآبادیات کے نامکمل ایجنڈے کے طور پر برقرار ہے۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا دہشت گردی کے بارے میں بات کرنا پاکستان، جموں و کشمیر اور اپنی ہی اقلیتوں کے خلاف اپنی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کے لیے "سموک اسکرین” یعنی دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں مقیم 20کروڑ سے زائد مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے ۔

انہوں نے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے لیے امتیازی شہریت کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سےمساجد اور گرجا گھروں پر دھاوا بولنا، عبادت گزاروں کو ہراساں کرنا اور حملہ کرنا اور مذہبی آزادی پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔انہوں نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف "نسل کشی” کےالزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی کو خود کے ادراک کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ نسل کشی کی روک تھام کے ماہرین اور ماہرین تعلیم سمیت پروفیسر گریگوری سٹینٹن دنیا کو بھارت میں ہونے والی نسل کشی کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔

پاکستانی مندوب راشد سبحانی نے کہا کہ اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے نسل پرستانہ اور بنیاد پرست بھارتی نظریے نے بدقسمتی سے نہ صرف معاشرے کو متاثر کیا ہے بلکہ اس نے بھارت کے تمام اداروں اور عدلیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انہوں نے سلامتی کونسل اور دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت پر زور دے کہ وہ اپنی ریاستی دہشت گردی ختم کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سمیت بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرے۔