اقوام متحدہ۔26ستمبر (اے پی پی):کشمیر پر اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی )کے رابطہ گروپ نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لئے ان کی جائز جدوجہد کی حمایت کا اعادہ کیا اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے بھارتی رہنماؤں کے غیر ضروری دعووں کو سختی سے مسترد کر دیا ۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں لوک سبھا یا قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے کے متبادل کے طور پر کام نہیں کر سکتے۔ اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حتمی حل پر منحصر ہے۔
اجلاس میں پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، آذربائیجان اور نائیجر کے وزرا اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اجلاس کی صدارت او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین براہیم طحہ نے کی۔ یہ اجلاس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس کے موقع پر منعقد ہوا۔اجلاس میں ترکیہ کے نائب وزیر خارجہ نوح یلماز، آذربائیجان کے نائب وزیر خارجہ النور محمدوف، سعودی سفیر ہیثم العالکی اور وزارت خارجہ میں نائجر کی بین الاقوامی تنظیموں کے ڈائریکٹر ہما کنسائے سلیمانی نے شرکت کی جبکہ ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی نے جموں و کشمیر کے عوام کے حقیقی نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی۔
رابطہ گروپ میں پاکستان کی نمائندگی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کی اور ارکان کو بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں۔مشترکہ اعلامیہ میں 5 اگست 2019 کو یا اس کے بعد اٹھائے گئے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لینے، جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مجموعی، منظم اور وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کو روکنے، متنازعہ علاقے میں غیر قانونی آبادیاتی تبدیلیوں کو روکنے ، اقوام متحدہ کے خصوصی طریقہ کار، بین الاقوامی میڈیا اور آزاد مبصرین کو خطے کا دورہ کرنے کے لئے غیر محدود رسائی کی اجازت دینے پر زور دیا گیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے گزشتہ سال دسمبر میں جموں و کشمیر کی حیثیت سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو نقصان پہنچانے کے لیے ملکی قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔اعلامیہ میں حریت قیادت، کشمیری سیاسی امنگوں کی حقیقی آواز اور ہزاروں سیاسی کارکنوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کی طویل نظربندی ،متعدد کشمیری سیاسی جماعتوں پر پابندی اور کشمیری کارکنوں کی جائیدادوں کو ضبط کرنے، اختلاف رائے کو دبانے اور مقامی آبادی کو ڈرانے دھمکانے کی جاری مہم کی مذمت کی گئی۔
بھارتی حکام کی طرف سے سرکردہ کشمیری رہنما یاسین ملک، جنہیں 2022 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، کو سزائے موت دینے کی درخواست کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔اعلامیہ میں بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ جموں و کشمیر میں اپنی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے۔
اعلامیہ میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے درخواست کی گئی کہ وہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کی نگرانی جاری رکھے اور 2018 اور 2019 کی اپنی رپورٹوں کے علاوہ، وہاں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تیسری رپورٹ جاری کرے۔ اعلامیہ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور او آئی سی کے رکن ممالک سے درخواست کی کہ وہ اقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی فورمز پر کشمیری عوام کی حالت زار کو اجاگر کریں۔