بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں کشمیر کے بارے میں مودی حکومت کا 5 اگست 2019 کا غیر قانونی اقدام

84
"youm-e-estehsaal"
"youm-e-estehsaal"

اسلام آباد۔5اگست (اے پی پی):برصغیر سے 1947 میں برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد بھارت نے 27 اکتوبر 1947 کو جموں وکشمیر پر ناجائز فوجی تسلط جمایا اور کشمیریوں کو محکوم بنایا۔ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا جائز حق، حق خودارادیت دینے سے مسلسل انکاری ہے۔ بھارت مقبوضہ علاقے پر جبری اور ناجائز فوجی تسلط کو جاری رکھنے کےلئے اپنے تمام وسائل کو استعمال کررہا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کی کشمیر پالیسی ہٹ دھرمی اور جھوٹ پر مبنی ہے اور یہ پالیسی بھارت کی بڑی نام نہاد جمہوریت ہونے کے دعوئوں کی یکسر نفی کرتی ہے۔ مودی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کوخصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکلز 370 اور 35 اے کے خاتمہ کے بعد کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تیزی سے تبدیل کردیا ہے، اس مقصد کے لئے بھارتی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں بھی بھارت کے قوانین کا اطلاق عمل میں لایا ہے۔

اس سے قبل بھارت کی پارلیمنٹ کا کوئی بھی قانون اس وقت تک کشمیر میں لاگو نہیں ہوتا تھا جب تک کشمیر کی اسمبلی اس کی توثیق نہیں کرتی تھی۔ بھارتی ہندو انتہا پسند حکومت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا، اس دوران سید علی گیلانی، محمد اشرف صحرائی، الطاف احمد شاہ اور کئی دیگر سرکردہ کشمیری رہنما جیلوں اور اپنی رہائش گاہوں پر قید کے دوران شہید ہوئے۔ حریت کانفرنس کی پوری قیادت اور آزادی پسند رہنمائوں کو فرضی مقدمات میں جیلوں، عقوبت خانوں اور گھروں میں نظربند کیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کے5 اگست 2019 کے غیر آئینی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنا اور بھارتی باشندوں کو آباد کرنے کی گھنائونی سازش کا حصہ ہے۔ 5 اگست 2019 کے بعد بھارت مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تیزی سے تبدیل کررہا ہے، اس مقصد کے لئے اس مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قوانین کا اطلاق بھی عمل میں لایا گیا ہے۔

کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو دبانے کیلئے انہیں ہمیشہ ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا، 77 برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں9لاکھ بھارتی قابض فوجی تعینات ہیں، بھارتی ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیری عوام کا یہ عزم ہے کہ وہ اپنی مبنی بر حق جدوجہد آزادی جاری رکھیں گے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ہندوتوا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس کے لئے بھارتی حکمرانوں نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کیا۔ بھارت کے 2019 کے غیر قانونی اقدام کے بعد اب بھارت میں مقیم ہندو مقبوضہ کشمیر میں زمین اور جائیداد خریدنے کو علاوہ نوکری اور شہریت بھی حاصل کررہے ہیں۔

بھارتی حکومت نے 2020 میں کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجراء سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کے بعد سے اب تک لاکھوں بھارتی باشندوں کو مقبوضہ کشمیر کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کشمیرکی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کم ہورہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت بھی ہزاروں افراد جیلوں میں ہیں، نئے آئینی اقدامات کی آڑ میں بھی سینکڑوں حریت رہنمائو ں اور آزادی پسند کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ اور دیگر رہنماءشامل ہیں۔ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک بھی جیل میں ہیں، وہ دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ کشمیر میں دیگر ہزاروں افراد بھی کالے قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔

تحریک آزادی کے بعض کارکنوں کو موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ کشمیریوں کو انسانی حقوق کی پامالیوں اور ظلم وزیادتیوں کا نشانہ بنا کر خوفزدہ نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کی حکمران بی جے پی سمجھتی ہے کہ وہ فوجی طاقت کے بل پر وہ کشمیریوں کو دبائے گی لیکن کشمیری عوام کا یہ عزم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اپنی جدوجہد آزادی کو منزل کے حصول تک جاری رکھیں گے، کشمیریوں کا یہ مطالبہ ہے کہ انہیں اپنے مستقبل کے فیصلہ کا موقع ملنا چاہئے جس کا حق کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی متعلقہ قراردادوں میں دیا ہے۔\932