اسلام آباد۔30مئی (اے پی پی):قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے 14ویں اجلاس سے متعلق خبروں کے حوالے سے یہ واضح کیا جاتا ہے کہ بینک دولتِ پاکستان نے 2018ء میں اپنے زیرِ ضابطہ کاری اداروں، بشمول بینکوں، ترقیاتی مالی اداروں (ڈی ایف آئیز)، مائکروفنانس بینکوں (ایم ایف بیز)، الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشنز(ای ایم آئیز)، پیمنٹ سسٹم آپریٹرز (پی ایس اوز)، پیمنٹ سروس پرووائڈرز (پی ایس پیز)، اور ایکسچینج کمپنیوں کو ورچوئل اثاثہ جات کے لین دین سے گریز کی ہدایت کی تھی۔
یہ ہدایت اس لیے نہیں دی گئی تھی کہ ورچوئل اثاثہ جات (وی ایز) کو ملک میں غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان اثاثہ جات کے لیے کوئی قانونی یا ضوابطی فریم ورک موجود نہیں تھا۔یہ اقدام اسٹیٹ بینک کے زیرِ ضابطہ اداروں اور ان کے صارفین کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا جو ورچوئل اثاثہ جات کے لیے قانونی اور ضوابطی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہو سکتے تھے۔ اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ اس وقت وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کردہ پاکستان کرپٹو کونسل کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔
اس کونسل کا مقصد، بشمول دیگر امور، پاکستان میں ورچوئل اثاثہ جات کے لیے ایک موزوں قانونی اور ضوابطی فریم ورک تیار کرنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قانونی اور ضوابطی فریم ورک ورچوئل اثاثہ جات سے متعلق ضروری وضاحت اور قانونی تحفظ فراہم کرے گا، جس سے صارفین اور سرمایہ کاروں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے گا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=603565