تجزیہ کاروں کا او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی میزبانی کے پاکستان کے اقدام کا خیر مقدم

82

اسلام آباد۔17دسمبر (اے پی پی):ملک کے نامور تجزیہ کاروں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی وزرائے خارجہ کانفرنس کی میزبانی اور ہمسایہ ممالک کی بھلائی کے لیے اسلامی ممالک کو شامل کرنے کے لیے پاکستان کے اقدام کو سراہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈاکٹر اے زیڈ۔ ہلالی نے ریڈیو پاکستان کے کرنٹ افیئر پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان کو دوسرے ممالک سے ملانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان خطے کے اپنے بہترین مفاد میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے دوست ممالک کے ساتھ مل کر ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان خطے کے اپنے بہترین مفاد میں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے دوست ممالک کے ساتھ مل کر ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ مزید برآں، اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے امریکہ کو افغانستان کے منجمد اثاثے جاری کرنے پر راضی کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو نازک صورتحال سے نکالنے کے لیے کوئی راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ جان چکے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بات چیت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ بین لاقو امی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی نے مزید کہا کہ یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف افغان عوام کی خاطر بلکہ عالمی امن کے لیے بھی صورت حال کا جواب دے۔ انہوں نے کہاکہ اس معاملے کو تمام فورمز پر اٹھایا جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ مسلم ممالک متحد ہو جائیں اور افغانستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مناسب اقدامات کریں۔ دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ پاکستان نے ایک کوشش کی ہے کیونکہ افغانستان سنگین بحرانوں میں ہے خاص طور پر معاشی بحران جو افغان عوام کی روز مرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے جو گزشتہ چار دہائیوں سے پہلے ہی بیرونی حملے کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بجا طور پر دنیا پر زور دے رہا ہے کہ وہ موجودہ افغان حکومت اور افغان عوام کو مدد فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے زیادہ فکرمند کوئی نہیں ہےکیونکہ اس کی جنگ زدہ ملک کے ساتھ طویل ترین سرحد مشترک ہے اور وہ پہلے ہی تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔