کراچی۔2جون (اے پی پی):پاکستان تحریک انصاف کے وفد سے کراچی سے تعلق رکھنے والے تاجری برادی نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے دفتر میں ملاقات کی۔ تحریک انصاف کے وفد کی سربراہی سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عاد ل شیخ کررہے تھے ان کے ہمراہ پی ٹی آئی کراچی کے صدر خرم شیرزمان اراکین اسمبلی راجہ اظہر، شاہنواز جدون پی ٹی آئی رہنما نعیم عادل شیخ موجود تھے جبکہ تاجر برادری کے وفد میں عتیق میر، شرجیل گوگلانی، جمیل پراچہ، وقاص اعظم،احمد شمسی،عبدالمجید نورانی، طیب صدیقی، عبدالخالق، شاہد منڈیا، جاوید اختر، احسن عالم، محمد شاہد، محمد عارف، محمد اسلم آرائین سمیت دیگر شریک تھے۔ تاجروں کے وفد نے کراچی میں سندھ حکومت کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈائون کی صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
بعد ازاں تحریک انصاف اور تاجر برادری کے وفد کی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ6بجے کے بعد پولیس کا لاک ڈائون شروع ہوجاتا ہے۔ لوگوں کو دکان کھولنے پر جرمانے لگائے جارہے ہیں، سندھ پولیس کے سربراہ وزیراعلی سندھ ہیں، جب سندھ حکومت کا دل کرتا ہے ہر بات این سی او سی پر ڈال دیتے ہیں اور جب اپنا دل کرتا ہے تو این سی او سی سے ہٹ جاتے ہیں، آج پاکستان میں کاروبار کھلا ہوا ہے لیکن کراچی میں 6بجے کا قانون نافذ کیا ہوا ہے، وفاقی حکومت کی کاوشوں سے آج ہمارے حالات انڈیا جیسے نہیں ہیں، اگر سخت لاک ڈائون لگ جاتا تو ہمارا غریب بھوک سے مرجاتا، سندھ حکومت صرف این سی او سی کو بدنام کررہی ہے، تاجروں کے خلاف سازش ملک کے خلاف سازش ہے، یہ پاکستان کو ناکام کرنے کی سازش کررہے ہیں، پیپلزپارٹی اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے ملکی سیکیورٹی کو دائو پر لگا رہی ہے،
این سی او سی کے اعلانات سے ہٹ کر سندھ حکومت اقدامات کررہی ہے، لگتا ہے یہ چالان بھی جعلی بن رہے ہیں، جس طرح جعلی اکائونٹ سامنے آئے ہیں، دیکھا جائے یہ چالان وزیراعلی ہائوس یا بلاول ہائوس جارہے ہیں ،کہیں بدمعاشی ہوئی ہم تاجروں کے ساتھ ہیں، ہماری حکومت اور تنظیم تاجروں کے ساتھ آٹھ بجے تک تاجروں کو کاروبار کی اجازت دی جائے، شہر کراچی کی وجہ سے ہم سب پارلیمینٹ میں ہیں، سندھ حکومت تاجروں سے زیادتی بند کرے، تاجر رہنما روڈوں پر ہیں تو مطلب ہم روڈوں پر ہیں، سندھ میں 40 فیصد اپوزیشن موجود ہے، این سی او سی کے فیصلے پر عملدرآمد کرانا چیف سیکریٹری اور آ جی سندھ کا کام ہے، اگر دونوں کام نہیں کرسکتے تو اپنے گھر چلے جائیں ،میں وفاق سے بھی کہوں گا کہ دونوں کو فارغ کیا جائے، یہ لوگ ہم سے نہیں ملیں گے تو کس سے ملیں گے ،کراچی میں بھی ڈاکو راج شروع ہوچکا ہے، کچے کے ڈاکو نہیں پکڑے جارہے ہیں لیکن اب سب سے بڑے ڈاکو تاجر بن چکے ہیں،
وفاقی حکومت گورنر راج کے حق میں نہیں، چیف سیکریٹری اور آ جی کا سب کو پتہ ہے کس کے نمائندے ہیں، سندھ حکومت کی دو نمبری ہے ایک ویکسین تک سندھ حکومت نے نہیں دی، تاجروں کے مطالبات ہیں، سیاسی لوگوں سے ملاقاتیں ان کا حق ہے، ہم تاجروں کے ساتھ ہیں۔ پی ٹی آئی کراچی کے صدر خرم شیرزمان نے کہا کہ تاجر برادری نے ہر قسم کی کوشش کرلی کاروبار کھلوانے کے لیے ہم تاجر برادری کے مشکور ہیں کہ انہوں نے این سی او پر اعتماد کا اظہار کیا، ایک ویکسین تک صوبے نے نہیں دی ساری ویکسین وفاق نے دی ہے، سندھ حکومت این سی او سی کے فیصلوں کو نہیں مان رہی، جب ویکسین کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں وفاق لگائے، کاروبار کی بات آئی تو کہتے ہیں ہم نہیں کھولنے دیں گے، سندھ حکومت ریاست کے اندر ریاست بنا رہی ہے، سندھ حکومت معاملات کو پیچھے لے جارہی ہے،
سندھ حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے، یہ سلسلہ مشکلات پیدا کررہا ہے، پہلے ہم کہتے تھے کہ گورنر راج لگایا جائے تو لوگ برا کہتے تھے آج کراچی کی بزنس کمیونٹی گورنر راج کی بات کررہی ہے، ہم ہروہ راستہ اختیار کریں گے جو عوام کے لیے فائدہ مند ہوگا، آج کراچی بھر میں ہم کام کررہے ہیں، پاکستان کی معیشت کو بٹھانے کے لیے کراچی کے تاجروں کو تنگ کیا جارہا ہے، ہم وزیراعظم صاحب کو تفصیل بتائیں گے، این سی او سی سے ڈیمانڈ کرتے ہیں اپنے فیصلے سندھ میں بھی لاگو کرے، ریاست کے اندر ریاست بنانے نہیں دیں گے، ہم بزنس کمیونٹی کے ساتھ ہیں۔ تاجر رہنما عتیق میر نے کہا کہ ہمارے عزائم بغاوت یا سیاسی نہیں ہیں ،ہمارا مطالبہ ہے صرف عزت اور قانون کے ساتھ کاروبار کرنے دیا جائے، کراچی میں کوئی ایسا طبقہ نہیں جس نے ہم سے ہمدردی نہ کی ہو، رات 9 بجے تک شہری ٹریفک میں پہنسا رہتا ہے آپ کو سارا وائرس تاجروں میں نظر آتا ہے، ہمارے کاروبار سے بڑا کاروبار شروع ہوچکا ہے جس میں تھانے اور کمشنری نظام شامل ہوچکا ہے، ہم پہنس چکے ہیں نکلنا بہت مشکل ہے،
سندھ حکومت اگر اپنی اصلاح نہیں کرتی تو حالات برے ہونگے ،مراد علی شاہ صاحب ہماری مراد اتنی ہے کہ ہمیں کاروبار کرنے دیں، صرف ایک ماہ میں کاروبار 20 فیصد تک رہ گیا ہے، مستحکم کاروبار والے خون کے آنسو رو رہے ہیں، دو گھنٹے محدود کرنا ہماری آکسیجن روکنے کے مترادف ہے، ہم صرف کاروبار کرنا چاہتے ہیں، میں وزیراعلی سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کراچی کو انارکی کی طرف نہ دھکیلیں، ہم آپ کی رعایا ہیں آپ اپنی سیاست کریں ہمیں کاروبار کرنے دیں، ہمیں پولیس اور ای سیز کی کالی بھیڑوں سے بچایا جائے، ورنہ ہم وہ کام کریں گے جو شاید ہمیں اچھا نہیں لگتا۔
تاجر رہنما جمیل پراچا نے کہا کہ 6 بجے کی ٹائمنگ بیکار ٹائمنگ ہے، شدید گرمی میں لوگ باہر نہیں نکلتے، دکانوں سے لوٹ مار ہورہی ہے جب ہمیں ڈاکو لوٹتے ہیں تو پولیس نظر نہیں آتی، کبھی نہیں سنا کہ پولیس نے ڈاکو پکڑ لیے، پولیس کو سب سے بڑے ڈاکو مجرم تاجر نظر آرہے ہیں، کالر پکڑ کر گاڑیوں میں ڈالنا شروع کردیتے ہیں، تاجر آپ کو ٹیکس دیتے ہی ،ہمیں یہ چیزیں اکسا رہی ہیں کہ ہم کچھ کریں ان کا کوئی وزیر فون نہیں اٹھا رہا، شاہ صاحب شاہ صاحب ہیں حکم سادر کردیتے ہیں کوئی اطلاع نہیں ہوتی بس اچانک نوٹیفکیشن آجاتا ہے، دکانیں سیل اور ڈنڈے مارنا شروع ہوجاتے ہیں، ہمیں کراچی میں کمشنری نظام نہیں چاہیے، لڑکے لڑکیاں بٹھا کر ہم سے بدتمیزی کی جاتی ہے، ایس او پیز کے نام پر انارکی پہیلائی ہوئی ہے، یہ وہ ڈاکٹر لاتے ہیں جو صرف ان کی پریس ریلیز پڑھتے ہیں۔ شرجیل گوکلانی نے کہا کہ ظلم کی انتہا ہورہی ہے، بات کرتے ہیں تو زیادتی کرتے ہیں، ہم نے گینگ وار کا مقابلہ کیا ہے، ان کا بھی کریں گے، 48 گھنٹے اب ہمارے الٹیمیٹم کو رہ گئے ہیں، ہمیں سی ایم ہائوس سے کوئی جواب نہیں ملا، ہم نے 14 سے زائد خطوط لکھے، وزیراعلیٰ اس شہر کو اپنا نہیں سمجھتے، ہم گورنر کے پاس جاتے ہیں وہ مل جاتے ہیں، وزیراعلی ہمیں نہیں ملتے، ہم گورنر کے پاس جاتے ہیں تو وزیراعلی ناراض ہوجاتے ہیں ،ہم تاجر گورنر راج کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں ہم احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔