ترکیہ اور شام کے ہولناک زلزلہ سے تیل و گیس کی لاجسٹک اور ٹرانسپورٹیشن میں تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں، مہر کاشف یونس

64
مہر کاشف یونس

اسلام آباد۔19فروری (اے پی پی):وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر اور کرغزستان ٹریڈ ہائوس کے چیئرمین مہر کاشف یونس نے خبردار کیا ہے کہ ترکیہ اور شام کے ہولناک زلزلہ سے تیل و گیس کی لاجسٹک اور ٹرانسپورٹیشن میں تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں جس سے پاکستان سمیت عالمی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔

اتوار کو سٹریٹجک تھنک ٹینک گولڈ رِنگ اکنامک فورم کے زیراہتمام منعقدہ ”دنیا بھر میں تیل اور گیس کی سپلائی پر ترکیہ وشام کے زلزلہ کے اثرات“ کے موضوع پر سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو اپنی بقا کے لیے سخت جدوجہد کرنا ہوگی اور ہمسایہ و دوست ممالک سے پائپ لائنوں کے ذریعے سستا تیل اور گیس درآمد کرنے کے مواقع سے فائدہ اٹھانا ہو گا کیونکہ یہی مالیاتی بحران سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے۔ اس کے علاوہ زراعت کے شعبہ کو اولین ترجیح دیکر جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنا ہو گا کیونکہ یہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں شام کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ترکی دنیا کی سب سے بڑی توانائی درآمد کرنے والی منڈی یورپ اور سنٹرل ایشیا و مشرق وسطیٰ کے درمیان واقع ہے اور ترکیہ تیل اور گیس کی توانائی سے مالا مال خطوں اور سب سے بڑی مارکیٹ کے درمیان ہونے کی وجہ سے عالمی توانائی کی نقل و حمل کا مرکز ہے۔ دوسری طرف روس برسوں سے یوکرین کو بائی پاس کرتے ہوئے تیل اور گیس یورپ کو برآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ وسطی ایشیائی ممالک اور آذربائیجان یورپ کیلئے تیل اور گیس کے نئے برآمدی روٹ کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اور امریکہ خطے میں تیل اور گیس کی سپلائی پر روس کے کنٹرول کو کمزور کرنے کے لیے وسطی ایشیا سے بحیرہ کیسپین میں تیل اور گیس پائپ لائن کا منصوبہ بنا رہے ہیں جہاں ان کو ترکیہ کے راستے تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر کی ضرورت ہو گی۔ چونکہ نارڈ اسٹریم قدرتی گیس کی پائپ لائن بمباری کی زد میں ہے اس لئے روس کو فوری طور پر اپنے تیل اور گیس کی برآمد کے راستوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آذر بائیجان، ترکمانستان، قزاقستان اور ازبکستان بھی اپنی توانائی کے سپلائی چینلز کو بڑھانا چاہتے ہیں۔

ان کے پاس اپنے سپلائی چینلز کو بڑھانے کے لیے چار ممکنہ راستے ہیں جن میں ایک راستہ چین، دوسرا ترکی، تیسرا ایران اور چوتھا راستہ افغانستان،پاکستان،بھارت ہے۔ افغانستان، پاکستان اور بھارت سے کوئی پائپ لائن نہیں گزرتی کیونکہ اس طرح کے انتظام میں خطرات بہت زیادہ ہیں اس لیے حقیقت پسندانہ آپشنز صرف چین اور ترکی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تیل اور گیس کی نقل و حمل کیلئے سیہان ترکی کا سب سے اہم کا مرکز ہے مگر یہ زلزلے کے مرکز کے قریب ہونے کی وجہ سے ترکی کی پوزیشن کو کمزور کر دے گا۔

اس کے نتیجے میں روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں بحیرہ کیسپین اور چین کے راستے اپنے تیل اور گیس کے وسائل مشرق کی طرف برآمد کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں اور یورپ روسی تیل اور گیس کی جگہ شمالی اور مغربی افریقا پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور یورپی ممالک کو زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لئے پاکستان کو اپنی کمزور معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے عالمی منڈیوں سے سستے نرخوں پر روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ذریعے گیس اور تیل درآمد کرنے کے امکانات تلاش کرنا ہوں گے۔