اسلام آباد۔17مارچ (اے پی پی):خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بتایا گیا ہے کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال کے پیش حالات عام انتخابات کے الگ الگ انعقاد کے لئے موافق نہیں ہیں جبکہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ تمام فریقین سے مشاورت کا عمل مکمل ہوچکا ہے، کے پی کے میں انتخابات کے حوالے سے جلد مناسب فیصلہ کریں گے۔جمعہ کوالیکشن کمیشن سےجاری اعلامیہ کےمطابق الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں معزز ممبران الیکشن کمیشن کے علاوہ سیکرٹری الیکشن کمیشن،چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا ، آئی جی خیبر پختونخوا اور الیکشن کمیشن کے سینئر افسران نے شرکت کی۔
چیف الیکشن کمشنر نے ابتدائی کلمات میں انتخابات کی شفافیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کا پُر امن انعقاد انتہائی ضروری ہے تاکہ امیدواران اور ووٹر ز اپنا حق رائے دہی بلا خوف و خطر استعما ل کر سکیں اوریہی وجہ ہے کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی خیبر پختونخو اکومدعو کیا گیا ہے تاکہ وہ ووٹرز اور عملہ کی مثالی سکیورٹی کے بارے میں بریف کریں۔ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا نے اپنی بریفنگ کے دوران بتایا کہ صوبائی حکومت کو19ارب کے مالی خسارے کا سامنا ہے جب کہ اسے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے لئے تقریباً 1.6ارب مزید درکار ہوں گے جس کو پورا کرنا صوبائی حکومت کے لئے مشکل ہے ۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ الیکشن کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن کے اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے ۔انہوں نےبتایا کہ صوبہ کی امن وامان کی صورتحال مخدوش ہے اور پولیس کو الیکشن کے انعقاد کے لئے 56ہزار نفری کی کمی کا سامنا ہے۔امن وامان کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ آئندہ انتخابات پُر امن ہوں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ انتخابات کے دوران پاک فوج / ایف سی کی تعیناتی انتہائی ضروری ہے کیونکہ اکیلے پولیس انتخابات کے دوران امن وامان کو کنٹرول نہیں کر سکتی ۔
چیف سیکرٹری نےبتایا کہ جنرل الیکشن 2013اور 2018کے دوران بھی پاک فوج نے خدمات سرانجام دی تھیں جس کی وجہ سے وہ انتخابات پُرامن ہوئے ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2018 کے الیکشن کے وقت امن وامان کی صورتحال موجودہ حالات سے بہت بہتر تھی۔آئی جی پولیس خیبرپختونخوا نے الیکشن کمیشن کو بریف کیا کہ مختلف دہشت گرد گروپ افغانستان کے صوبہ بدخشاں ، نورستان ، کنڑ، نگرہار، پکتیہ اور دیگر علاقوں سے بارڈر کراس کر کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2022 میں صوبہ میں 495دہشت گردی کے واقعا ت ہوئے اور 2023 میں اب تک 118دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں جس میں100 شہادتیں اور 275 افراد زخمی ہوئے ۔دہشت گردی کی کارروائیوں میں جنوبی خیبر پختونخواکے اضلاع شمالی وزیرستان ، لکی مروت ، بنوں ،ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں اور نئے ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا) کے حالات بھی الیکشن کے انعقاد کے لئے موزوں نہیں ہیں۔
انہوں نے یہ کہا کہ باقی ملک کی نسبت خیبرپختونخوا کی صورتحال بہت خراب ہے اور الیکشن صرف ایک دن کی سرگرمی نہیں ہے بلکہ الیکشن کے دوران پولیس کو انتخابی ریلیوں،جلسوں اور سیاسی رہنماوں اور ان کی نقل وحمل کے دوران بھی سکیورٹی فراہم کرنا ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اب اگر صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہوتا ہے اور بعد میں قومی اسمبلی کا کروایا جاتا ہے تونہ صرف اخراجات دُگنے ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لاء انفورسنگ ایجنسنز کے لئے بھی خطرات بڑھ جائیں گے اور ووٹرز اورانتخابی عملہ کو بھی اس خطرناک صورتحال کا دو دفعہ سامنا کرنا پڑے گا۔
چیف سیکرٹری اور آئی جی پختونخوانے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ دہشت گرد کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اس لئے ان کی کارروائیاں اپریل سے اکتوبر تک تیز تر ہو جاتی ہیں ۔ لہذا انتخابات کے پُرامن انعقاد کے لئے مذکورہ بالا حقائق کو سامنے رکھا جائے ۔الیکشن کا انعقاد بے شک آئینی ذمہ داری ہے لیکن پُرامن اور شفاف الیکشن کا انعقاد بھی آئینی ذمہ داریوں میں سے ہے جو ان حالات میں ایک مشکل امر ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے مذکورہ بریفنگ کے بعد کہا کہ الیکشن کمیشن کو صوبائی حکومت کی مشکلات کا ادراک ہے لیکن الیکشن کا پُرامن اور بروقت انعقاد بھی الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے ۔
بہر حال ا لیکشن کمیشن کے لئے صوبائی حکومت کی بریفنگ انتہائی اہم اور مفید ہے۔ اس بریفنگ کے بعدتمام سٹیک ہولڈرز بشمول وزارت خزانہ،داخلہ،دفاع ، انٹیلجنٹس ایجنسیاں بشمول آئی بی،آئی ایس آئی اور سی ٹی ڈی پنجاب اورخیبر پختونخوا ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب چیف سیکرٹری اور آئی جی خیبر پختونخوااور گورنر خیبر پختونخوا سے مشاورت مکمل ہو چکی ہے اور کمیشن جلد اس سلسلے میں مناسب فیصلہ کرے گا۔